دوست بھی تھے اُس گلی میں دشمنوں کے ساتھ ساتھ
پھول بھی برسے تھے مجھ پر پتھروں کے ساتھ ساتھ
اب کہاں خواب و خیال و خال و خد پہلے سے ہیں
کِس قدر بدلا ہوں میں کیلنڈروں کے ساتھ ساتھ
اب نجانے مجھ کو لے جائیں کہاں آنسو میرے
اب تو اِک لمبا سفر ہے پانیوں کے ساتھ ساتھ
شوقِ بام و در میں کچھ بنیاد کا سوچا نہیں
گھر بناتا جا رہا ہوں ساحلوں کے ساتھ ساتھ
چُپکے چُپکے جانے کیا لکھتے رہے ہو رات بھر
بخت بھی کالا کیا ہے کاغذوں کے ساتھ سات
Bookmarks