ایران میں پاسدارنِ انقلاب کے ایک سینئر کمانڈر نے کہا ہے کہ ان کے زمینی دستوں کو پاکستان کی سرحد عبور کر کے ان شدت پسندوں کی تلاش کی اجازت دی جائے جو انقلابی گارڈز پر خود کش حملے میں ملوث ہیں۔
اتوار کو ایران کے صوبے سیستان - بلوچستان میں ہونے والے اس خود کش حملے میں ساٹھ کے قریب افراد ہلاک ہوگئے تھے اور ایران نے پاکستان کے ساتھ اس واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے الزام عائد کیا تھا کہ حملہ آور پاکستان سے ایران میں داخل ہوئے تھے۔
ہلاک شدگان میں انقلابی گارڈ کے ڈپٹی کمانڈر جنرل نور علی شوشتری سمیت کئی اہم کمانڈر شامل تھے۔
اب پاسدارنِ انقلاب کے زمینی دستوں کے سربراہ بریگیڈیر جنرل محمد پاکپور نے ایرانی حکام پر زور دیا ہے کہ انھیں پاکستان کی سرحد عبور کر کے وہاں موجود جندولہ کے شدت پسندوں پر حملے کی اجازت دی جائے۔ زمینی دستوں کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ’ایرانی حکام حکم جاری کریں کہ پاکستانی علاقے میں جندولہ کے شدت پسندوں پر حملہ کیا جائے‘۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان عبدالباسط ان الزامات کو مسترد کر چکے ہیں کہ ان کا ملک ایرانی سر زمین پر حملوں کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔
ادھر اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی پاسدارانِ انقلاب پر خود کش حملے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس حملے کا ارتکاب کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے تک لایا جائے۔
اتوار کو ہونے والے اس خود کش حملے کی بعد ایران کی سکیورٹی شدید اضطراب اور غم و غصے کا شکار ہے۔ ایران کو یقین ہے کہ اس حملے کے لیے جو گروپ ذمہ دار ہے اس کے اڈے پاکستان میں ہیں۔
خود ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے اس حملے کے بعد لزام لگایا تھا کہ پاسدارانِ انقلاب کے اعلیٰ کمانڈروں پر حملہ کروانے میں ’پاکستانی ایجنٹوں‘ کا ہاتھ ہے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ منوچہر متقی نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پر جندولہ کے خلاف کارروائی کرے اور ’ان جرائم کے پیچھے جو ہاتھ ہیں انھیں کاٹا جائے۔ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ شدت پسندوں کی کسی طرح سے بھی مدد یا حمایت نہیں کرتا اور یہ کہ اس حملے کا مقصد پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کو نقصان پہنچانا ہے۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے سابق سربراہ طاہر محمد خان ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ جنداللہ نامی تنظیم کو بیت اللہ محسود کے ساتھیوں کی حمایت حاصل ہے۔
Bookmarks