حضرت سیدنا عمر بن بزاز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں، ایک بار جمعۃ المبارک کے روز میں حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم کے ساتھ جامع مسجد کی طرف جارہا تھا، میرے دل میں خیال آیا کہ حیرت ہے جب بھی میں مرشد کے ساتھ جمعہ کو مسجد کی طرف آتا ہوں تو سلام و مصافحہ کرنے والوں کی بھیڑ بھاڑ کے سبب سے گزرنا مشکل ہوجاتا ہے، مگر آج کوئی نظر تک اٹھا کر نہیں دیکھتا! میرے دل میں اس خیال کا آنا ہی تھا کہ حضور غوث اعظم علیہ رحمۃ اللہ الاکرم میری طرف دیکھ کر مسکرائے اور بس، پھر کیا تھا! لوگ لپک لپک کر سرکار بغداد سے مصافحہ کرنے کے لئے آنے لگے۔ یہاں تک کہ میرے اور مرشد کریم علیہ رحمۃ اللہ الرحیم کے درمیان ایک ہجوم حائل ہوگیا۔ میرے دل میں آیا کہ اس سے تو وہی حالت بہتر تھی۔ دل میں یہ خیال آتے ہی آپ نے مجھ سے فرمایا:“ اے عمر! تم ہی تو ہجوم کے طلبگار تھے، تم جانتے نہیں کہ لوگوں کے درمیان میری مٹھی میں ہیں اگر چاہوں تو اپنی طرف مائل کرلوں اور چاہوں تو دور کر دوں۔ (زبدۃ الاثار مترجم، ص94، مکتبہ نبویہ لاہور)