Results 1 to 4 of 4

Thread: تاریخ کا ایک ورق ,,,,محمد شفیع چترالی must read

  1. #1
    tesst2 is offline Senior Member
    Last Online
    20th April 2014 @ 12:53 PM
    Join Date
    18 Jun 2007
    Gender
    Male
    Posts
    16,879
    Threads
    150
    Thanked
    1449

    Lightbulb تاریخ کا ایک ورق ,,,,محمد شفیع چترالی must read

    تاریخ اسلام کی یہ حقیقی کہانی 23مارچ 1169 کے روز سے شروع ہوتی ہے جب صلاح الدین ایوبی کو مصر کا وائسرائے اور فوج کا کمانڈر انچیف بنایا گیا۔ اسے اتنا بڑا رتبہ اس لیے دیا گیا کہ وہ حکمران خاندان کا نونہال تھا اور دوسرے اس لیے کہ اوائل عمر میں ہی وہ فنِ حرب وضرب کا ماہر ہوگیا تھا۔ سپاہ گری ورثے میں پائی تھی،صلا ح الدین ایوبی نے مدرسہٴ نظام الملک میں تعلیم حاصل کی۔ یاد رہے کہ نظام الملک دنیائے اسلام کی ایک سلطنت کے وزیر تھے۔ یہ مدرسہ انہوں نے قائم کیا تھا جس میں تعلیم دی جاتی اور بچوں کو اسلامی نظریات اور تاریخ سے بہرہ ور کیا جاتا تھا۔ نورالدین زنگی نے اسے جنگی چالیں سکھائیں، ملک کے انتظامات کے سبق دےئے اور ڈپلو میسی میں مہارت دی۔ اس تعلیم وتربیت نے اس کے اندر وہ جذبہ پیدا کردیا جس نے آگے چل کر اسے صلیبیوں کے لیے بجلی بنا دیا، اوائل جوانی میں ہی اس نے وہ ذہانت اور اہلیت حاصل کرلی تھی جو ایک سالارِاعظم کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
    اس کا جب شعور بیدا رہوا تو اس نے پہلی خلش یہ محسوس کی کہ اسلامی دنیا کی مرکزیت ختم ہوچکی تھی ،صلیبیوں کی نہایت دلکش تخریب کاریاں شروع ہوچکی تھیں۔ زرپرستی اور تعیش(روشن خیالی) کا دور دورہ تھا۔ مسلمان حکمرانوں میں نہ صرف یہ کہ اتحاد نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کی مدد سے بھی گریز کرتے تھے۔ وہ عیاش ہوگئے تھے، شراب اور عورت نے جہاں ان کی زندگی رنگین بنا رکھی تھی وہاں عالم اسلام کا مستقبل تاریک ہوگیا تھا، ان امیروں، ان کے وزیروں اور مشیروں کے حرم غیرمسلم لڑکیوں سے بھرے ہوئے تھے جنہیں خاص تربیت دے کر ان حرموں میں داخل کیا گیا تھا۔اس کا نتیجہ یہ تھا کہ صلیبی جن میں فرینک (فرنگی) خاص طور پر قابل ذکر ہیں، مسلمانوں کی سلطنتوں کے ٹکڑے ہڑپ کرتے چلے جاتے تھے اور بعض مسلم حکمران شاہ فرینک کو سالانہ ٹیکس یا جزیہ ادا کر رہے تھے۔ صلیبی اپنی جنگی قوت کے رعب سے اور چھوٹے موٹے حملوں سے حکمرانوں کو ڈراتے رہتے، کچھ علاقے پر قبضہ کرلیتے، تاوان اور ٹیکس وصول کرتے تھے، مسلمان حکمران اپنی رعایا کا خون چوس کر ٹیکس دیتے رہتے تھے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ انہیں عیش وعشرت میں پریشان نہ کیا جائے۔فرقہ پرستی کے بیج بو دےئے گئے تھے، ان میں سب سے زیادہ خطرناک فرقہ حسن بن صباح کا تھا جو صلاح الدین ایوبی کی جوانی سے ایک صدی پہلے معرض وجود میں آیا تھا، یہ مفاد پرستوں کا فرقہ تھا، بے حد خطرناک اور پراسرار۔ حشیشی فدائیین اسی فرقے سے تعلق رکھتے تھے۔
    صلاح الدین ایوبی کوجب مصر کا وائسرے اور کمانڈر انچیف بنا کر بھیجا گیا تو ان کا ڈسپلن بڑاہی سخت ثابت ہوا۔ اس نے تفریح، عیاشی اور آرام کو اپنے لیے اور اپنی افواج کے لیے حرام قرار دے دیا۔ اس نے اپنی دماغی اور جسمانی قوتوں کو صرف اس مقصد پر مرکوز کردیا کہ سلطنت اسلامیہ کو مستحکم کیا جائے، اس نے یہی مقاصد اپنی فوج کو دےئے، مصر کا وائسرائے بن کر اس نے کہا ”خدا نے مجھے مصر کی سرزمین دی ہے، اس کی ذات باری مجھے فلسطین بھی ضرور عطا کرے گی“ مگر مصرپہنچ کر اس پر انکشاف ہوا کہ اس کا مقابلہ صرف صلیبیوں سے ہی نہیں بلکہ اپنے مسلمان بھائیوں نے اس کی راہ میں بڑے بڑے حسین جال بچھا دیئے ہیں جو صلیبیوں کے عزائم اور جنگی قوت سے زیادہ خطرناک ہیں۔
    مصر میں صلاح الدین ایوبی کا استقبال جن زعماء نے کیا ان میں ناجی نام کا ایک سالار خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جب وہ ناجی کے سامنے مصافحہ کے لیے رکا تو ایوبی کے چہرے پر تبدیلی سی آگئی تھی وہ ناجی سے ہاتھ ملانا چاہتا تھا لیکن ناجی جو اس کے باپ کی عمر کا تھا۔ سب سے پہلے درباری خوشامدیوں کی طرح جھکا۔ پھر ایوبی سے بغل گیر ہوگیا۔ اس نے ایوبی کی پیشانی چوم کر کہا ”میرے خون کا آخری قطرہ بھی تمہاری جان کی حفاظت کے لیے بہے گا۔ تم میرے پاس زنگی اور شرکوہ کی امانت ہو۔“”میری جان عظمت اسلام سے زیادہ قیمتی نہیں“۔ صلاح الدین ایوبی نے ناجی کا ہاتھ چوم کر کہا ”محترم! اپنے خون کا ایک ایک قطرہ سنبھال کر رکھیے، صلیبی سیاہ گھٹاوٴں کی مانند چھا رہے ہیں“۔ناجی جواب میں صرف مسکرایا ۔
    ایوبی اس زہر خند کو نہ سمجھ سکا۔ البتہ ماہر انٹیلی جنس افسر علی بن سفیان جس کو ایوبی ساتھ لایاتھا، اس کوناجی کی باڈی لینگویج نے شک میں ڈال دیا اور انہوں نے اسے اپنی انٹیلی جنس کا ہدف بنا نے کا فیصلہ کرلیا۔
    ایک رات ناجی کے خاص کمرے میں اس کے دو کمانڈر جو اس کے معتمد اور ہمراز تھے اس کے پاس بیٹھے شراب پی رہے تھے، ناجی نے کہا ”جوانی کا جوش ہے، تھوڑے دنوں میں ٹھنڈا کر دوں گا۔ کم بخت جو بھی کرتا ہے کہتا ہے رب کعبہ کی قسم صلیبیوں کو سلطنت اسلامیہ سے باہر نکال کر دم لوں گا ،یہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ ملت اسلامیہ ختم ہوچکی ہے “۔
    ناجی نے اپنی عادت کے مطابق نوجوان صلاح الدین ایوبی کو شیشے میں اتارنے کے لئے چاپلوسی کا راستہ اختیار کیا اور ساتھ ساتھ ان کے” انتہاپسندانہ“ مزاج کو بدلنے کے لئے انہیں شراب وشباب کا عادی بنانے کی بھی ترکیبیں سوچنا شروع کر دیں، چنانچہ انہوں نے ایوبی کی آمد پر ایک شاندار استقبالی جشن منانے کا اعلان کردیا، اس جشن میں اس کی سوڈانی فورس نے جس قسم کی ”مہارتوں“ کا مظاہرہ کیا اور جشن کے نام پر شراب وکباب اور رقص وسرور کی محفلیں جمائیں ، اس پر ایوبی کی طبیعت سخت مکدر ہوئی اور اگلے ہی روز انہوں نے ناجی کو بلاکر حکم دیا کہ وہ اپنی فورس مصر کی قومی فوج میں ضم کر دے اور خود اس کی کمان چھوڑ کر مرکزی فوج میں نئی ذمہ داری ملنے کا انتظار کرے۔ ناجی نے ایوبی کے سامنے تو یہ فیصلہ قبول کرنے کا عندیہ دیا لیکن باہر نکلتے ہی ان کے خلاف سازشیں شروع کردی۔ پہلے نمبر پر ناجی کی ترجیح سوڈانی فورس میں ایوبی کے خلاف بغاوت اور بددلی پھیلانا تھی، اسے اس کام کی خصوصی مہارت تھی چنانچہ اس نے دیکھتے ہی دیکھتے سوڈانی فوج میں یہ تاثر پھیلادیا کہ سوڈانی فورس کو مصری فوج کا غلام بنانے کا پروگرام ہے اور یہ کہ ایوبی اسلام اور امت مسلمہ کی آڑ میں سوڈانیوں کو اپنے مفادات کی جنگ میں دھکیلنا چاہتا ہے ، اس نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ فلسطینیوں کے ساتھ ہمارا کیا رشتہ ہے جو ہمیں ان کے لئے لڑنے کا کہا جارہاہے،سب سے کارگرپروپیگنڈہ یہ کیا گیا کہ ایوبی فوج اور امراء کی شراب نوشی پر پابندی لگا کر ”انتہا پسندی “کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ دوسری جانب ناجی نے پڑوسی عیسائی ملک کی صلیبی فوج سے رابطہ کر کے اسے مصر پر حملے کی صورت میں بھرپور تعاون کا یقین دلانے کا فیصلہ کیا چنانچہ ایک دن اس نے دو سواروں کو ایک خط دے کر پڑوسی ملک کی طرف روانہ کردیا۔
    ناجی کا جاسوسی کا اپنا نظام تھا وہ معلوم کر چکا تھا کہ علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کا خصوصی مشیر ہے اور عرب کا مانا ہوا سراغرساں۔ اس نے علی کے پیچھے اپنے جاسوس چھوڑ دےئے تھے اور اس نے علی کو قتل کرا دینے کا منصوبہ بھی بنالیا تھا لیکن علی ابن سفیان ناجی کے ان تمام ارادوں سے آگاہ تھا، ناجی نے ایوبی کی پارسائی کابھرم توڑنے کے لئے ایک مراکشی رقاصہ ذکوئی کو ایوبی کے خیمے تک پہنچانے کی کوشش کی لیکن اس سے پہلے ہی علی نے ذکوئی تک رسائی حاصل کر کے اس پر یہ واضح کردیا تھا کہ اس کی ہر حرکت پہلے سے اس کی نظر میں ہے اور اب اس کی نجات کاراستہ یہی ہے کہ وہ ناجی کی سرگرمیوں سے انہیں آگاہ کرے۔ذکوئی نے جس کو صرف معاوضے کے لئے یہ کام کرنا پڑا تھا یہ کردار بخوشی قبول کرلیا اور یوں ناجی مکمل طورپر علی بن سفیان کی گرفت میں آگیا۔ذکوئی ہی نے علی بن سفیان کو ناجی کے بغاوت کے منصوبے اور شاہ فرینک کے نام خط کی اطلاع دی اور علی نے بلاتاخیر آٹھ سوار تعاقب میں بھیج کر ناجی کا خط برآمد کرالیا۔
    صلاح الدین ایوبی نے علی بن سفیان کی مدد سے ناجی کے اس خط میں جو پکڑ لیا گیا تھا، حملے کی تاریخ کو مٹا کر اگلی تاریخ لکھ دی۔ دو ذہین آدمیوں کو یہ خط دے کر شاہ فرینک کی طرف روانہ کر دیا گیا۔ ان آدمیوں کو یہ ظاہر کرنا تھا کہ وہ ناجی کے پیامبر ہیں۔ انہیں روانہ کرکے اس نے سوڈانی فوج کو مصری فوج میں مدغم کرنے کا حکم روک لیا۔
    آٹھویں روز پیامبر واپس آگئے۔ وہ ناجی کا پیغام دے آئے اورفرینک کا جواب (ناجی کے نام) لے آئے تھے۔ فرینک نے لکھا تھا کہ حملے کی تاریخ سے دو دن پہلے سوڈانی فوج بغاوت کردے تاکہ صلاح الدین ایوبی کو صلیبیوں کا حملہ روکنے کا ہوش ہی نہ رہے۔صلاح الدین ایوبی نے بحیرہٴ روم کے ساحل پر ان مقامات پر اپنی فوج کو چھپا دیا جہاں صلیبیوں کی بحریہ کو لنگرانداز ہونا اور فوجیں اتارنی تھیں۔ اس نے ان مقامات سے دور اپنی بحریہ بھی چھپا دی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ خط میں دی ہوئی تاریخ کے عین مطابق صلیبیوں کی بحریہ حملہ آور ہوئی جس میں فرینک کی، یونان کی، رومیوں کی اور سسلی کی بحریہ شامل تھیں ۔ اس فوج کا صلیبی کمانڈر ایملرک تھا جن بادبانی کشتیوں میں رسد تھی ان کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکا۔ جہاز دو قطاروں میں آرہے تھے۔
    صلاح الدین ایوبی نے کمان اپنے پاس رکھی۔ اس نے صلیبیوں کی بحریہ کو ساحل کے قریب آنے دیا۔ سب سے پہلے جہاز لنگرانداز ہوئے۔ اچانک ان پر آگ برسنے لگی۔ یہ منجنیقوں سے پھینکی ہوئی مشعلیں تھیں اور آگ کے گولے اور ایسے تیر بھی تھے جن کے پچھلے حصے جلتی ہوئی مشعلوں کی مانند تھے۔ ادھر سے مسلمانوں کے چھپے ہوئے جہاز آگئے۔ انہوں نے آگ ہی برسائی، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بحیرہ روم جل رہا ہو۔ادھر نورالدین زنگی نے شاہ فرینک کی سلطنت پر حملہ کردیا۔ فرینک نے اپنی فوج کو مصر میں داخل کرنے کے لیے خشکی کے ذریعے روانہ کردیا تھا۔ فرینک صلیبیوں کی بحریہ کے ساتھ تھا۔ اسے اپنے ملک پر حملے کی اطلاع ملی تو بڑی مشکل سے جان بچا کر اپنے ملک میں پہنچا مگر وہاں کی دنیا ہی بدل گئی تھی۔ 19 دسمبر 1169ء کے روزصلیبیوں نے اپنی شکست پر دستخط کیے اور صلاح الدین ایوبی کو تاوان ادا کیا۔ قارئین! اس کہانی میں مدرسہ نظامیہ، عیاش مسلم حکمرانوں،صلیبی یلغار، فلسطین پر قبضہ ، سوڈانی فورس ، ناجی ، انٹیلی جنس کشمکش کے کرداروں کے ذکر سے اگر آپ کے ذہن میں آج کے حالات کے ساتھ مماثلت کا کوئی تصور ابھرا ہے تو اسے فوراً جھٹک دیجئے کیونکہ آج اس میں صلاح الدین ایوبی کا کردار شامل نہیں ہے۔

  2. #2
    taib's Avatar
    taib is offline Senior Member
    Last Online
    24th January 2018 @ 04:30 PM
    Join Date
    25 May 2010
    Location
    Sibi
    Age
    45
    Gender
    Male
    Posts
    1,378
    Threads
    124
    Credits
    89
    Thanked
    68

    Default


  3. #3
    adeeeeeel is offline Junior Member
    Last Online
    22nd October 2016 @ 03:55 AM
    Join Date
    21 Sep 2009
    Age
    38
    Posts
    5
    Threads
    0
    Credits
    979
    Thanked
    0

    Default

    Very Nice

  4. #4
    adeeeeeel is offline Junior Member
    Last Online
    22nd October 2016 @ 03:55 AM
    Join Date
    21 Sep 2009
    Age
    38
    Posts
    5
    Threads
    0
    Credits
    979
    Thanked
    0

    Default

    شکرا

Similar Threads

  1. Replies: 6
    Last Post: 17th December 2018, 12:45 PM
  2. Replies: 16
    Last Post: 5th November 2016, 10:54 PM
  3. Replies: 7
    Last Post: 5th November 2016, 10:53 PM
  4. Replies: 1
    Last Post: 20th January 2010, 06:00 PM
  5. Replies: 0
    Last Post: 24th October 2009, 04:37 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •