بعد از انتخاب اتحاد کا بنیادی اور فیصلہ کن کردار

ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رہنما اور ارکان قومی اسمبلی کئی ماہ سے علاقے میں گھوم پھر کر اپنی مہم چلا رہے ہیں
نیا آئینی درجہ ملنے کے بعد پاکستان کے شمالی علاقے گلگت و بلتستان میں بارہ نومبر کو ہونے والے عام انتخابات کے بارے میں مقامی مبصرین میں یہ خدشات زور پکڑ رہے ہیں کہ ان کی نئی اسمبلی پاکستان کے فروری کے انتخابات کا ایکشن ری پلے ہو سکتی ہے۔

گلگت بلتستان ریجن کے چوبیس میں سے تئیس حلقوں میں بارہ نومبرکو پولنگ ہو گی لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ انتخابات سے چند ماہ قبل علاقے کے لیے بڑا آئینی پیکج دے کر عوامی خواہشات کی نمائندگی کی کوشش کرنے کے باوجود پاکستان میں حکمران جماعت اتنی نشستیں جیت سکے کہ اپنی حکومت بنا لے۔

گلگت بلتستان کو اگر ماضی کے آئینے میں دیکھا جائے تو وہاں بالعموم وہی جماعت حکومت بناتی ہے جسے اسلام آباد سے سرکاری سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ یہی کچھ دو ہزار چار کے انتخابات میں ہوا تھا جب جنرل پرویز مشرف کی آشیر باد کے باعث ق لیگ آٹھ ذاتی اور دس آزاد امیدواروں کی نشستوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب رہی تھی۔

اس بار بھی ماہرین یہ نہیں کہتے کہ اسلام آباد کے حکمران گلگت و بلتستان کی اسمبلی میں حزب اختلاف میں بیٹھیں گے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ اقتدار کا ہما اپنے سر بٹھانے کے لیے پیپلز پارٹی کو اتحادیوں کی چھتری استعمال کرنا پڑے گی۔

ماضی کی روایات کو نبھاتے ہوئے مرکزی حکمران جماعت اس بار بھی گلگت کے انتخابات میں اپنا ’نا جائز‘ اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کر ہی ہے۔ اس مداخلت کی واضح مثال قمر الزمان کائرہ کی پیپلز پارٹی کے امیدواروں کے حق میں مہم چلانا ہے۔

گورنر کا منصب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ غیر جانبدار پوزیشن اختیار کریں۔ قبل از انتخاب مانیٹرنگ کے دوران ہمیں اس طرح کی اطلاعات ملی ہیں کہ مرکز میں حکمران جماعت ان انتخابات میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان
پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن نے پیپلز پارٹی کی اس قبل از انتخاب مہم پر تنقید کی ہے۔ علاقے کو نئی آئینی حیثیت ملنے کے بعد ہونے والے پہلے عام انتخابات کی مانیٹرنگ کے لیے انسانی حقوق کمیشن کی ایک ٹیم بھی گلگت پہنچ چکی ہے۔

علاقے میں وارد ہونے کے فورًا بعد جاری کردہ ایک بیان میں انسانی حقوق کمیشن نے گلگت و بلتستان کے گورنر اور وفاقی وزیر اطلاعات قمر الزمان کائرہ کی انتخابی جلسوں میں شرکت پر اظہار نا پسندیدگی کیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ گورنر کا منصب اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ وہ غیر جانبدار پوزیشن اختیار کریں۔ کمیشن کا کہنا ہے قبل از انتخاب مانیٹرنگ کے دوران انہیں اس طرح کی اطلاعات ملی ہیں کہ مرکز میں حکمران جماعت ان انتخابات میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

گلگت کے سینئر صحافی سعادت علی مجاہد کا انتخابی مہم کے بارے میں کہنا ہے ’جو صورتحال انتخابی مہم کے ختم ہوتے بن رہی ہے اس کے پیش نظر میرا خیال ہے کہ کوئی ایک جماعت بلکہ دو جماعتیں بھی مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہو گی۔ بات پھر وہیں آ کر رکے گی کہ فیصلہ جیتنے والے آزاد امیدواروں کے ہاتھوں میں ہو گا اور یوں ایک ڈھیلی ڈھالی مخلوط حکومت بننے کے امکانات بہت واضح ہیں۔’

گلگت بلتستان کے ضلع سکرود کے سیاسی تجزیہ کار اسماعیل خان کا کہنا ہے کہ اس حکومت سازی میں آزاد امیدواروں کا بھی اہم کردار ہو گا۔’یہاں ہمیشہ سے آزاد امیدوار آٹھ دس نشستیں لے جاتے ہیں جس کے بعد وہ عموماً اس پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت سازی کے عمل میں شامل ہو جاتے ہیں جس کی مرکز میں حکومت ہو اور یہاں بھی چند نشستیں جیت جائے۔ مجھے لگتا ہے کہ اس بار بھی ایسا ہی ہو گا۔‘

اس بار گلگت بلتستان کے انتخابات کا سب سے منفرد اور نمایاں پہلو متحدہ قومی موومنٹ کا اس دوڑ میں شامل ہونا ہے۔

اگر انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں کی بات کی جائے تو ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی کے بعد علاقے کی دوسری بڑی جماعت ہے جس نے سات اضلاع کے چوبیس حلقوں میں انیس امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ پیپلز پارٹی تئیس امیدوار مقابلے میں ہیں جبکہ نواز لیگ اور قاف لیگ بالترتیب پندرہ اور چودہ حلقوں میں امیدوار کھڑے کر پائیں ہیں۔


نواز شریف تین روز گلگت و بلتستان میں گزار کر واپس لاھور پہنچ چکے ہیں
متحدہ قومی موومنٹ نے پورے علاقے میں اپنی انتخابی مہم اس انداز میں چلائی ہے کہ جس کی بنیاد پر بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ تین سے چار نشستیں جیت لے گی۔

اگر ایسا ہوتا ہے تو مبصرین کی نظر میں اس نو وارد جماعت کی بہت بڑی کامیابی ہو گی اور مرکز کی طرح یہاں بھی اس جماعت کو حکومت سازی میں فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو سکتی ہے۔

سعادت علی مجاہد کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج سے قطع نظر ایم کیو ایم نے بہت متاثر کن انداز میں سب سے طویل انتخابی مہم چلائی ہے۔’پیپلز پارٹی اور دیگر تمام بڑی جماعتوں کے مرکزی رہنما چند روز قبل ہی یہاں پہنچے ہیں جبکہ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے رہنما اور ارکان قومی اسمبلی کئی ماہ سے علاقے میں گھوم پھر کر اپنی مہم چلا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ پارٹی سربراہ الطاف حسین نے بھی کئی ہفتوں سے یہاں ٹیلی فونک خطاب کی سلسلہ شروع کر رکھا ہے جس سے ان کی اس علاقے کے انتخابات میں دلچسپی اور توجہ کا پتہ چلتا ہے۔‘

مسلم لیگ نواز کے قائد نواز شریف تین روز گلگت و بلتستان میں گزار کر واپس لاھور پہنچ چکے ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم گزشتہ تین روز سے گورنر قمر الزمان کائرہ چلا رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی بھی انتخابی مہم ختم ہونے سے پہلے علاقے میں جلوہ افروز ہوں گے۔

پاکستان مسل لیگ قاف کی مہم کی ذمہ داری سینیٹر نثار میمن اور ان کی صاحبزادی ماروی میمن کے کنندھوں پر ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ باپ بیٹی کو شمالی علاقوں کی سیاحت کا پرانا شوق ہے۔

ان بڑی سمجھی جانے والی جماعتوں کے مقابلے میں ایم کیو ایم نے بہت منظم اور دیرپا انداز میں انتخابی مہم شروع کر رکھی ہے جس میں علاقے کے چیدہ چیدہ متنازعہ سیاسی اور سماجی مسائل کو زیربحث لایا جا رہا ہے۔

کراچی کے معتبر مدرسوں سے فارغ التحصیل دیوبندی اور شیعہ علماء کی بڑی تعداد کئی ماہ سے گلگت و بلتستان کے مختلف علاقوں میں براجمان ہیں اور اپنے اپنے عقیدے کے ماننے والوں کو متحدہ کے فلسفے اور خدمات سے آگاہ کرنے میں مصروف ہیں۔


پیپلز پارٹی کی انتخابی مہم گزشتہ تین روز سے گورنر قمر الزمان کائرہ چلا رہے ہیں
اس کے علاوہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے اپنی حکومت بننے کی صورت میں گلگت و بلتستان کو صوبے کا درجہ دینے کا اعلان کر کے اپنے باقی حریفوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے جو مرکز کی سیاسی و سفارتی مصلحتوں کے باعث عوامی خواہشات کے باوجود اب تک اس موضوع پر لب کشائی سے گریزاں دکھائی دیتے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ ان عوامل کے پیش نظر نتائج کے حوالے سے ایم کیو ایم بڑا اپ سیٹ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے بالخصوص گلگت، غذر اور ہنزہ کے بعض حلقوں میں جہاں کانٹے کا مقابلہ ہونے کی توقع ہے۔

ان عوامل کے پیش نظر ماہرین کا کہنا ہے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی انتخابی اکثریت ان آزاد امیدواروں کے حصے آئے گی جو مقامی سیاست کرتے ہیں اور مرکز سے نالاں ہی نظر آتے ہیں۔ ایسے میں ایم کیو ایم کا ان آزاد امیدواروں کے ساتھ بعد از انتخاب اتحاد دور کی کوڑی دکھائی نہیں دیتا۔

چین، بھارت، پاکستان اور متنازعہ جموں و کشمیر میں گھرے بہتر ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے گلگت و بلتستان کی سیاسی اہمیت اس کے جغرافیے کے بیان ہی سے عیاں ہو جاتی ہے۔ ایسے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں مرکز گریز قوتوں کا اقتدار خطرے سے خالی نہیں۔ اور شائد یہ سوچ گلگت و بلتستان میں بعد از انتخاب اتحادوں میں بنیادی اور فیصلہ کن کردار ادا کرے۔