Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 24

Thread: طاقت کا امتحان .....سعادت علی منٹو

  1. #1
    Nahid's Avatar
    Nahid is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd June 2013 @ 12:02 PM
    Join Date
    06 Aug 2009
    Location
    ALLAH ki panha main
    Gender
    Female
    Posts
    12,059
    Threads
    905
    Credits
    960
    Thanked
    2774

    Default طاقت کا امتحان .....سعادت علی منٹو

    طاقت کا امتحان



    "کھیل خوب تھا، کاش تم بھی وہاں موجود ہوتے۔"

    "مجھے کل کچھ ضروری کام تھا مگر اس کھیل میں کونسی چیز ایسی قابلِ دید تھی جسکی تم اتنی تعریف کر رہے ہو؟"

    "ایک صاحب نے چند جسمانی ورزشوں کے کرتب دکھلائے کہ ہوش گم ہو گیا۔"

    "مثلاً۔"

    "مثلاً کلائی پر ایک انچ موٹی آہنی سلاخ کو خم دینا۔"

    "یہ آجکل بچے بھی کر سکتے ہیں۔"

    "چھاتی پر چکی کا پتھر رکھوا کر آہنی ہتھوڑوں سے پاش پاش کرانا۔"

    "میں نے ایسے بیسیوں شخص دیکھے ہیں۔"

    "مگر وہ وزن جو اس نے دو ہاتھوں سے اٹھا کر ایک تنکے کی طرح پرے پھینک دیا کسی اور شخص کی بات نہیں، یہ تمھیں بھی ماننا پڑے گا۔"

    "بھلے آدمی یہ کونسا اہم کام ہے، وزن کتنا تھا آخر۔"

    "کوئی چار من کے قریب ہو گا، کیوں؟"

    "اتنا وزن تو شہر کا فاقہ زدہ مزدور گھنٹوں پشت پر اٹھائے رہتا ہے۔"

    "بالکل غلط۔"

    "وہ کیوں؟"

    "غلیظ ٹکڑوں پر پلے ہوئے مزدور میں اتنی قوت نہیں ہو سکتی۔ طاقت کے لئے اچھی غذا کا ہونا لازم ہے۔ شہر کا مزدور۔۔۔۔۔۔۔کسیی باتیں کر رہے ہو۔"

    "غذا والے معاملے کے متعلق میں تم سے متفق ہوں مگر یہ حقیقت ہے۔ یہاں ایسے بہتیرے مزدور ہیں جو دو پیسے کی خاطر چار من بلکہ اس سے کچھ زیادہ وزن اٹھا کر تمھارے گھر کی دوسری منزل پر چھوڑ آ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔کہو تو اسے ثابت کر دوں؟"

    یہ گفتگو دو نوجوان طلبہ میں ہو رہی تھی جو ایک پر تکلف کمرے کی گدی دار کرسیوں پر بیٹھے سگریٹ کا دھواں اڑا رہے تھے۔

    "میں اسے ہر گز نہیں مان سکتا اور باور آئے بھی کس طرح۔۔۔۔۔۔قاسم چوب فروش کے مزدور ہی کو لو۔ کمبخت سے ایک من لکڑیاں بھی تو اٹھائی نہیں جاتیں۔ ہزاروں میں ایک ایسا طاقتور ہو تو اچنبھا نہیں ہے۔"

    "چھوڑو یار اس قصے کو، بھاڑ میں جائیں یہ سب مزدور اور چولھے میں جائے انکی طاقت۔ سناؤ آج تاش کی بازی لگ رہی ہے؟"

    "تاش کی بازیاں تو لگتی ہیں رہیں گی، پہلے اس بحث کا فیصلہ ہونا چاہیئے۔"

    سامنے والی دیوار پر آویزاں کلاک ہر روز اسی قسم کی لا یعنی گفتگوؤں سے تنگ آ کر برابر اپنی ٹک ٹک کئے جا رہا تھا۔ سگریٹ کا دھواں انکے منہ سے آزاد ہو کر بڑی بے پروائی سے چکر لگاتا ہوا کھڑکی کے راستے باہر نکل رہا تھا۔ دیواروں پر لٹکی ہوئی تصاویر کے چہروں پر بے فکری و بے اعتنائی کی جھلکیاں نظر آتی تھیں۔ کمرے کا فرنیچر سالہا سال سے ایک ہی جگہ پر جما ہوا کسی تغیر سے نا امید ہو کر بے حس پڑا سوتا تھا۔ آتشدان کے طاق پر رکھا ہوا کسی یونانی مفکر کا مجسمہ اپنی سنگین نگاہوں سے آدم کے ان دو فرزندوں کی بے معنی گفتگو سنکر تعجب سے اپنا سر کھجلا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔کمرے کی فضا ان بھدی اور فضول باتوں سے کثیف ہو رہی تھی۔

    تھوڑی دیر تک دونوں دوست تاش کی مختلف کھیلوں، برج کے اصولوں اور روپیہ جیتنے کے طریقوں پر اظہارِ خیالات کرتے رہے۔ دفعتاً ان میں وہ جسے مزدور کی طاقت کے متعلق پورا یقین تھا اپنے دوست سے مخاطب ہوا۔

    "باہر بازار میں لوہے کا جو گارڈر پڑا ہے وہ تمھارے خیال میں کتنا وزن رکھتا ہو گا۔"

    "پھر وہی بحث۔"

    "تم بتاؤ تو سہی"

    "پانچ چھ من کے قریب ہو گا۔"

    "یہ وزن تو تمھاری نظر میں کافی ہے نا؟"

    "یعنی تمھارا یہ مطلب ہے کہ لوہے کی یہ بھاری بھر کم لاٹھ تمھارا مزدور پہلوان اٹھائے گا۔۔۔۔۔۔گدھے والی گاڑی ضرور ہو گی اسکے ساتھ۔"

    "یہاں کے مزدور بھی گدھوں سے کیا کم ہیں۔ گیہوں کی دو تین بوریاں اٹھانا تو انکے نزدیک معمولی کام ہے۔۔۔۔۔۔۔مگر تمھیں کیا پتہ ہو سکتا ہے۔ کہو تو، تمھارے کل والے کھیل سے کہیں حیرت انگیز اور بہت سستے داموں ایک نیا تماشا دکھاؤں۔"

    "اگر تمھارا مزدور لوہے کا وہ وزنی ٹکڑا اٹھائے گا تو میں تیار ہوں۔"

    "تمھاری آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی چالاکی کے۔"

    دونوں دوست اپنے اپنے سگریٹ کی خاکدان میں گردن دبا کر اٹھے اور باہر بازار کی طرف مزدور کی طاقت کا امتحان کرنے چل دیئے۔ کمرے کی تمام اشیاء کسی گہری فکر میں غرق ہو گئیں، جیسے انہیں کسی غیر معمولی حادثے کا خوف ہو، کلاک اپنی انگلیوں پر کسی متعینہ وقت کی گھڑیاں شمار کرنے لگا۔ دیواروں پر آویزاں تصویریں حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔کمرے کی فضا خاموش آہیں بھرنے لگ گئی۔

    لوہے کا وہ بھاری بھر کم ٹکڑا لاش کا سا سرد اور کسی وحشتناک خواب کی طرح تاریک، بازار کے ایک کونے میں بھیانک دیو کی مانند اکڑا ہوا تھا۔ دونوں دوست لوہے کے اس ٹکڑے کے پاس آ کر کھڑے ہو گئے اور کسی مزدور کا انتظار کرنے لگے۔

    بازار بارش کی وجہ سے کیچڑ میں لت پت تھا، جو راہگزروں کے جوتوں کے ساتھ اچھل اچھل کر انکا مضحکہ اڑا رہی تھی۔ یوں معلوم ہوتا گویا وہ اپنے روندنے والوں سے کہہ رہی ہے کہ وہ اسی آب و گِل کی تخلیق ہیں جسے وہ اس وقت پاؤں سے گوندھ رہے ہیں۔ مگر وہ اس حقیقت سے غافل اپنے دنیاوی کام دھندوں کی دھن میں مصروف کیچڑ کے سینے کو مسلتے ہوئے ادھر ادھر جلد جلد قدم اٹھاتے ہوئے جا رہے تھے۔

    کچھ دکاندار اپنے گاہکوں کے ساتھ سودا کرنے طے کرنے میں مصروف تھے اور کچھ سجی ہوئی دکانوں میں تکیہ لگائے اپنے حریف ہم پیشہ دکانداروں کی طرف حاسدانہ نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور اس وقت کے منتظر تھے کہ کوئی گاہک وہاں سے ہٹے اور وہ اسے کم قیمت کا جھانسا دیکر گھٹیا مال فروخت کر دیں۔

    ان منیاری کی دکانوں کے ساتھ ہی ایک دوا فروش اپنے مریض گاہکوں کا انتظار کر رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بازار میں سب لوگ اپنے اپنے خیال میں مست تھے اور یہ دو دوست کسی دنیاوی فکر سے بے پروا ایک ایسے مزدور کی راہ دیکھ رہے تھے جو انکی دلچسپی کا سامان مہیا کر سکے۔

    دُور بازار کے آخری سرے پر ایک مزدور کمر کے گرد رسی لپیٹے اور پشت پر ٹاٹ کا ایک موٹا سا ٹکڑا لٹکائے کیچڑ کی طرف معنی خیز نگاہوں سے دیکھتا ہوا چلا آ رہا تھا۔

    نانبائی کی دکان کے قریب پہنچ کر وہ دفعتاً ٹھٹکا، سالن کی دیگچیوں اور تنور سے تازہ نکلی ہوئی روٹیوں نے اسکے پیٹ میں نوکدار خنجروں کا کام کیا۔

    مزدور نے اپنی پھٹی ہوئی جیب کی طرف نگاہ کی اور گرسنہ دانتوں سے اپنے خشک لبوں کو کاٹ کر خاموش رہ گیا، سرد آہ بھری اور اسی رفتار سے چلنا شروع کر دیا۔ چلتے وقت اسکے کان بڑی بے صبری سے کسی کی دل خوش کن آواز "مزدور" کا انتظار کر رہے تھے مگر اس کے دل میں نہ معلوم کیا کیا خیالات چکر لگا رہے تھے۔

    "دو تین دن سے روٹی بمشکل نصیب ہوئی ہے اب چار بجنے کو آئے ہیں مگر ایک کوڑی تک نہیں ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش آج صرف ایک روٹی کے لئے ہی کچھ نصیب ہو جائے۔۔۔۔۔۔۔۔بھیک؟۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔نہیں خدا کارساز ہے۔"

    اسنے بھوک سے تنگ آ کر بھیک مانگنے کا خیال کیا مگر اسے ایک مزدور کی شان کے خلاف سمجھتے ہوئے خدا کا دامن تھام لیا اور اس خیال سے مطمئن ہو کر جلدی جلدی اس بازار کو طے کرنے لگا، اس خیال سے کہ شاید دوسرے بازار میں اسے کچھ نصیب ہو جائے۔

    دونوں دوستوں نے بیک وقت ایک مزدور کو تیزی سے اپنی طرف قدم بڑھاتے دیکھا، مزدور دبلا پتلا نہ تھا چنانچہ انہوں نے فوراً آواز دی۔

    "مزدور۔"

    یہ سنتے ہی گویا مزدور کے سوکھے دھانوں میں پانی مل گیا، بھاگا ہوا آیا اور نہایت ادب سے پوچھنے لگا۔

    "جی حضور۔"

    "دیکھو، لوہے کا یہ ٹکڑا اٹھا کر ہمارے ساتھ چلو، کتنے پیسے لو گے؟"

    مزدور نے جھک کر لوہے کے بھاری بھر کم ٹکڑے کی طرف دیکھا اور دیکھتے ہی اسکی آنکھوں کی وہ چمک جو "مزدور" کا لفظ سنکر پیدا ہوئی تھی، غائب ہو گئی۔

    وزن بلا شک و شبہ زیادہ تھا مگر روٹی کے قحط اور پیٹ پوجا کے لئے سامان پیدا کرنے کا سوال اس سے کہیں وزنی تھا۔

    مزدور نے ایک بار پھر اس آہنی لاٹھ کی طرف دیکھا اور دل میں عزم کرنے کے بعد کہ وہ اسے ضرور اٹھائے گا، ان سے بولا۔

    "جو حضور فرمائیں۔"

    "یعنی تم یہ وزن اکیلے اٹھا لو گے؟" ان دو لڑکوں میں سے اسنے مزدور کی طرف حیرت سے دیکھتے ہوئے کہا جو کل شب جسمانی کرتب دیکھ کر آیا تھا۔

    "بولو کیا لو گے؟ یہ وزن بھلا کہاں سے زیادہ ہوا؟" دوسرے نے بات کا رخ پلٹ دیا۔

    "کہاں تک جانا ہو گا حضور۔"

    "بہت قریب، دوسرے بازار کے نکڑ تک۔"

    "وزن زیادہ ہے، آپ تین آنے دیدیجئے۔"

    "تین آنے۔"

    "جی ہاں، تین آنے کچھ زیادہ تو نہیں ہیں۔"

    "دو آنے مناسب ہے بھئی۔"

    دو آنے۔۔۔۔۔۔۔آٹھ پیسے، یعنی دو وقت کے لئے سامانِ خورد و نوش، یہ سوچتے ہی مزدور راضی ہو گیا۔ اسنے اپنی کمر سے رسی اتاری اور اسے لوہے کے ٹکڑے کے ساتھ مضبوطی سے باندھ دیا، دو تین جھٹکوں کے بعد وہ آہنی سلاخ اسکی کمر پر تھی۔

    گو وزن واقعی ناقابلِ برداشت تھا مگر تھوڑے عرصے کے بعد ملنے والی روٹی نے مزدور کے جسم میں عارضی طور پر ایک غیر معمولی طاقت پیدا کر دی تھی، اب ان کاندھوں میں جو بھوک کی وجہ سے مردہ ہو رہے تھے، روٹی کا نام سنکر طاقت عود کر آئی۔

    گرسنہ انسان بڑی سے بڑی مشقت فراموش کر دیتا ہے، جب اسے اپنے پیٹ کے لئے کچھ سامان نظر آتا ہے۔

    "آئیے۔" مزدور نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے کہا۔

    دونوں دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف نگاہیں اٹھائیں اور زیرِ لب مسکرا دیئے، وہ بہت مسرور تھے۔

    "چلو، مگر ذرا جلدی قدم بڑھاؤ، ہمیں کچھ اور بھی کام کرنا ہے۔"

    مزدور ان دو لڑکوں کے پیچھے ہو لیا، وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ موت اسکے کاندھوں پر سوار ہے۔

    "کیوں میاں، کہاں ہے وہ تمھارا کل والا سینڈو؟"

    "کمال کردیا ہے اس مزدور نے، واقعی سخت تعجب ہے۔"

    "تعجب؟ اگر کہو تو اس لوہے کے ٹکڑے کو تمھارے گھر کی بالائی چھت پر رکھوا دوں۔"

    "مگر سوال ہے کہ ہم لوگ اچھی غذا ملنے پر بھی اتنے طاقتور نہیں ہیں۔"

    "ہماری غذا تو کتابوں اور دیگر علمی چیزوں کی نذر ہو جاتی ہے۔ انھیں اس قسم کی سر دردی سے کیا تعلق؟ بے فکری، کھانا اور سو جانا۔"

    "واقعی درست ہے۔"

    لڑکے مزدور پر لدے ہوئے بوجھ اور اسکی خمیدہ کمر سے غافل آپس میں اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔

    وہاں سے سو قدم کے فاصلے پر مزدور کی قضا کیلے کے چھلکے میں چھپی ہوئی اپنے شکار کا انتظار کر رہی تھی۔ گو مزدور کیچڑ میں پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا مگر تقدیر کے آگے تدبیر کی ایک بھی پیش نہ چلی۔ اسکا قدم چھلکے پر پڑا، پھسلا اور چشم زدن میں لوہے کی اس بھاری لاٹھ نے اسے کیچڑ میں پیوست کر دیا۔

    مزدور نے مترحم نگاہوں سے کیچڑ اور لوہے کے سرد ٹکڑے کی طرف دیکھا، تڑپا اور ہمیشہ کیلیئے بھوک کی گرفت سے آزاد ہو گیا۔

    دھماکے کی آواز سنکر دونوں لڑکوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا، مزدور کا سر آہنی سلاخ کے نیچے کچلا ہوا تھا، آنکھیں باہر نکلی ہوئی نہ معلوم کس سمت ٹکٹکی لگائے دیکھ رہی تھیں۔ خون کی ایک موٹی سی تہہ کیچڑ کے ساتھ ہم آغوش ہو رہی تھی۔

    "چلو آؤ چلیں، ہمیں خواہ مخواہ اس حادثے کا گواہ بننا پڑے گا۔"

    "میں پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ وزن اس سے نہیں اٹھایا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔لالچ۔"

    یہ کہتے ہوئے دونوں لڑکے مزدور کی لاش کے گرد جمع ہوتی ہوئی بھیڑ کو کاٹتے ہوئے اپنے گھر روانہ ہو گئے۔

    سامنے والی دکان پر ایک بڑی توند والا شخص ٹیلیفون کا چونگا ہاتھ میں لئے غالباً گندم کا بھاؤ طے کرنیوالا تھا کہ اس نے مزدور کو موت کا شکار ہوتے دیکھا اور اس حادثے کو منحوس خیال کرتے ہوئے بڑبڑا کر ٹیلیفون کا سلسلۂ گفتگو منقطع کر لیا۔

    "کمبخت کو مرنا بھی تھا تو میری دکان کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔بھلا ان لوگوں کو اس قدر وزن اٹھانے پر کون مجبور کرتا ہے۔"

    تھوڑی دیر کے بعد اسپتال کی آہنی گاڑی آئی اور مزدور کی لاش اٹھا کر عملِ جراحی کیلیئے ڈاکٹروں کے سپرد کر دی۔

    دھندلے آسمان پر ابر کے ایک ٹکڑے نے مزدور کے خون کو کیچڑ میں ملتے ہوئے دیکھا، اسکی آنکھوں میں آنسو چھلک پڑے۔۔۔۔۔۔۔ان آنسوؤں نے سڑک کے سینے پر اس خون کے دھبوں کو دھو دیا۔

    آہنی لاٹھ ابھی تک بازار کے ایک کنارے پڑی ہوئی ہے، مزدور کے خون کا صرف ایک قطرہ باقی ہے جو دیوار کے ساتھ چمٹا ہوا نہ معلوم کس چیز کا اپنی خونیں آنکھوں سے انتظار کر رہا ہے۔


    (5 جنوری 1935ء)

    سعادت حسن منٹو



  2. #2
    12rounds is offline Member
    Last Online
    10th August 2010 @ 07:31 PM
    Join Date
    22 Oct 2009
    Location
    Faisalabad
    Age
    36
    Posts
    1,023
    Threads
    182
    Thanked
    28

    Smile

    Nice Sharing Nahid G

  3. #3
    ^NajanyQ^'s Avatar
    ^NajanyQ^ is offline Advance Member
    Last Online
    5th January 2021 @ 10:37 AM
    Join Date
    23 Mar 2009
    Location
    ھزارہ
    Age
    32
    Gender
    Male
    Posts
    13,306
    Threads
    439
    Credits
    995
    Thanked
    701

    Default

    Very nice sharing sister...!

  4. #4
    Nahid's Avatar
    Nahid is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd June 2013 @ 12:02 PM
    Join Date
    06 Aug 2009
    Location
    ALLAH ki panha main
    Gender
    Female
    Posts
    12,059
    Threads
    905
    Credits
    960
    Thanked
    2774

    Default

    Quote 12rounds said: View Post
    Nice Sharing Nahid G
    aap ka bohat shukriya...

  5. #5
    Nahid's Avatar
    Nahid is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd June 2013 @ 12:02 PM
    Join Date
    06 Aug 2009
    Location
    ALLAH ki panha main
    Gender
    Female
    Posts
    12,059
    Threads
    905
    Credits
    960
    Thanked
    2774

    Default

    Quote ^NajanyQ^ said: View Post
    Very nice sharing sister...!
    thanks a lot Bhai ji....

  6. #6
    Confuse's Avatar
    Confuse is offline Senior Member+
    Last Online
    2nd May 2015 @ 03:53 PM
    Join Date
    17 Jan 2009
    Location
    Khamosh NaGaR
    Gender
    Male
    Posts
    8,124
    Threads
    778
    Credits
    0
    Thanked
    785

    Default

    agar main sirf nice kahoo tu aap ki itne mehnat karne ka phir koi faida nahi ,

    Mintoo sahab aik Afsanvi insan the , un k afsane tu maine kam hi pare lakin yeh jo aik Choti se kawish aap ne share ki ,

    Haqeeqat ma iss k Andar kuch peecheeda baatien hain , Ham log kuch logo ki Parwa nahi karte , Nahi karte Parwa iss cheez k ham apne shartoo par kisi dosre se aisa kaam karwa letey hain jis ka Nateeja bhi ghalat nikal ata ha ,

    Insan Ashraful Makhlookaat main se ha aur phir aik Insan hi dosre Insan ki Importance ko nahi samajta ,

    Bas....Kehne ko tu Waqai ma bohatt kuch ha Lakin Alfaz Sath dey tu tabhi na

    Aise aik tehree maine bhi share ki ha aap ne pare bi hai

    Ham ma Ehsas ki sabse bare kame ha , Dosroo ka Ehsaas....
    Anyway Iss Intihaai ache sharing k liye shukriya

  7. #7
    -RajpuT-'s Avatar
    -RajpuT- is offline Senior Member+
    Last Online
    29th July 2015 @ 04:32 PM
    Join Date
    18 Nov 2009
    Location
    The City Of Mangoes In The Indus Valley
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    853
    Threads
    145
    Credits
    0
    Thanked
    162

    Default

    بہت عمدہ جناب
    شیئر کرنے کا شکریہ

  8. #8
    Nahid's Avatar
    Nahid is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd June 2013 @ 12:02 PM
    Join Date
    06 Aug 2009
    Location
    ALLAH ki panha main
    Gender
    Female
    Posts
    12,059
    Threads
    905
    Credits
    960
    Thanked
    2774

    Default

    aap ne itna behteen tabsara kiya..itni aachi baaten likhi..shayad shukriya se zyada ..phir bhi aap ka bohat shukriya..aap ki mamnon houn janab...

  9. #9
    Nahid's Avatar
    Nahid is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd June 2013 @ 12:02 PM
    Join Date
    06 Aug 2009
    Location
    ALLAH ki panha main
    Gender
    Female
    Posts
    12,059
    Threads
    905
    Credits
    960
    Thanked
    2774

    Default

    Quote -RajpuT- said: View Post
    بہت عمدہ جناب
    شیئر کرنے کا شکریہ
    aap ka bhi shukriya janab aap ne apni acchi post se nawaza...

  10. #10
    M-Qasim's Avatar
    M-Qasim is offline Advance Member+
    Last Online
    7th September 2022 @ 07:41 PM
    Join Date
    22 Mar 2009
    Gender
    Male
    Posts
    33,351
    Threads
    915
    Credits
    1,718
    Thanked
    3391

    Default

    Okay

  11. #11
    Nahid's Avatar
    Nahid is offline Senior Member+
    Last Online
    22nd June 2013 @ 12:02 PM
    Join Date
    06 Aug 2009
    Location
    ALLAH ki panha main
    Gender
    Female
    Posts
    12,059
    Threads
    905
    Credits
    960
    Thanked
    2774

    Default

    Quote M-Qasim said: View Post
    Okay
    ..thanks for okay Dear....

  12. #12
    mhafeez is offline Member
    Last Online
    9th June 2010 @ 01:40 PM
    Join Date
    30 Aug 2009
    Location
    *~Aawaara Baadlou'n main~*
    Posts
    3,778
    Threads
    287
    Thanked
    239

    Default

    Bahut khoob..nice sharing..thx 4tht..**

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. Replies: 69
    Last Post: 29th December 2016, 11:42 PM
  2. Replies: 15
    Last Post: 2nd October 2015, 05:15 AM
  3. Replies: 12
    Last Post: 7th August 2013, 06:36 PM
  4. Replies: 136
    Last Post: 16th May 2010, 04:56 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •