جانے کیوں شکست کا عذاب لیئے پھرتا ہوں
میں کیا ہوں اور کیا خواب لیئے پھرتا ہوں
اُس نے کیا تھا اِک بار سوالِ محبت مجھ
میں ہر لمحہ وفا کا جواب لیئے پھرتا ہوں
اُس نے پوچھا کب سے نہیں سوئے
میں تب سے رات جگنو کا حساب لیئے پھرتا ہوں
اُس کی خواہش تھی کہ میری آنکھوں میں پانی دیکھے
میں اُس وقت سے آنسوؤں
کا سیلاب لیئے پھرتا ہوں
افسوس کہ پھر بھی وہ میرا نا ہوا فراز
میں جس کی آرزو کی کتاب لیئے پھرتا ہوں
Bookmarks