دجال


یہ تمام مضمون حضر ت شاہ رفیع الدین صاحب اور حضرت مولانا بدر عالم
میرٹھی رح کے رسائل سے لیا گیا ہے

سب سے بڑا فتنہ

حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ آدم علیہ السلام کی پیدائش سے
لیکر قیامت آنے تک دجال سے زیادہ بڑااور کوئی فتنہ نہیں ہے ۔(مسلم)
دجال کے شعبدے
حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
فرمایا دجال بائیں آنکھ سے کانا ہوگا اس کے جسم پر بہت گھنے بال ہوں گے
اور اس کے ساتھ اس کی جنت اور دوزخ بھی ہو گی لیکن جو اس کی جنت نظر آئے
گی در اصل وہ اس کی دوزخ ہو گی اور جو دوزخ نظر آئے گی وہ اصل میں جنت
ہوگی (لہٰذا جس کو وہ جنت بخشے گا وہ دوزخی ہو گا او جس کو اپنی دوزخ میں
ڈالے گا وہ جنتی ہو گا۔(مسلم شریف)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیںکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا کیا میں تم کو دجال کے متعلق ایسی بات نہ بتا دوں جو حضرت
نوح علیہ السلام سے لیکر آج تک کسی نبی نے اپنی امت کو نہ بتائی ہو دیکھو
وہ کانا ہو گا اور اس کے ساتھ جنت او ردوزخ کے نام سے دو شعبدے بھی ہوں
گے تو جس کو وہ جنت کہے گا وہ درحقیقت دوزخ ہو گی دیکھو دجال سے میں بھی
تم کو اسی طرح ڈراتا ہوں جیسا کہ نوح علیہ السلام نے اپنی قوم کو ڈرایا
تھا۔( متفق علیہ)

دجال سے دور رہو

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم نے فرمایا دیکھو جو شخص دجال کی خبر سنے اس کوچاہئے کہ وہ اس سے دور
ہی رہے بخدا کہ ایک شخص کو اپنے دل میں یہ خیال ہو گا کہ وہ مومن آدمی ہے
لیکن ان عجائبات کو دیکھ کر جو اسکے ساتھ ہوںگے وہ بھی اس کے پیچھے لگ
جائے گا ( ابو داؤد )
دجال کا حلیہ
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے
ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے دجال کے متعلق کچھ
تفصیلات تم لوگوں سے بیان کیں لیکن مجھ کو خطرہ ہے کہ کہیں تم پورے طور
پر اس کو نہ سمجھے ہو دیکھو مسیح دجال کا قد ٹھنگنا ہو گا اس کے دو نوں
پیر ٹیڑھے ، سر کے بال شدید خمیدہ ، ایک چشم مگر ایک آنکھ بالکل پٹ صاف
نہ اوپر کو ابھری ہوئی نہ اندر کو دھنسی ہوئی اگر اب بھی تم کو شبہ رہے
تو یہ بات یاد رکھنا کہ تمھارا رب یقیناً کانا نہیں ہے ۔(ابو داؤد)

ہر نبی علیہ السلام نے دجال سے ڈرایا

ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم
کو یہ فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ نوح علیہ السلام کے بعد جو نبی آیا ہے
اس نے اپنی قوم کو دجال سے ضرور ڈرایا ہے اور میں بھی تم کو اس سے ڈراتا
ہوں اس کے بعد آپ نے اس کی صورت وغیرہ بیان فرمائی اور کہا ممکن ہے جنہوں
نے مجھ کو دیکھا ہے یا میرا کلام سنا ہو ۔اس میں کوئی ایسا نکل آئے جو اس
کا زمانہ پاسکے انہوں نے پوچھا اس دن ہمارے دلوں کا حال کیسا ہو گا آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا ہی جیسا آج ہے یااور بھی بہتر۔(ترمذی
و ابو داؤد)

دجال کے ظہور کی علامات

اسما ءبنت یزید رض بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے
گھر تشریف فرما تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کا ذکر فرمایا کہ اس
کے ظہور سے پہلے تین قحط پڑیں گے ایک سال آسمان کی ایک تہائی بارش رک
جائے گی اور زمین کی پیداواربھی ایک تہائی کم ہو جائے گی دوسرے سال آسمان
کی دو حصے بارش رک جائے گی اور زمین کی پیداوار دوحصے کم ہو جائے گی اور
تیسرے سال آسمان سے بارش بالکل نہ برسے گی اور زمین کی پیداوار بھی کچھ
نہ ہو گی حتیٰ کہ جتنے حیوانات ہیں خواہ وہ کھر والے ہوں یاڈاڑھ سے کھانے
والے سب ہلاک ہو جائیں گے اور اس کا سب سے بڑا فتنہ یہ ہو گا کہ وہ ایک
گنوار آدمی کے پاس آ کر کہے گا اگر میں تیرے اونٹ زندہ کر دوں تو کیا اس
کے بعد بھی تجھ کو یہ یقین نہ آئے گا کہ میںتیرارب ہوں ؟وہ کہے گا ضرور ،
اس کے بعد شیطان اسی کے اونٹ کی سی شکل بن کر اس کے سامنے آئے گا جیسے
اچھے تھن اور بڑے کوہان والے اونٹ ہوا کرتے ہیں اسی طرح ایک اور شخص کے
پاس آئے گا جس کا باپ اور سگا بھائی گزر چکا ہو گا اور اس سے آ کر کہے گا
بتلا اگر میں تیرے باپ بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا پھر بھی یہ یقین نہ
آئے گا کہ میں تیرا رب ہوں وہ کہے گا کیوں نہیں ؟بس اس کے بعد شیطان اس
کے باپ بھائی کی صورت بن کر آ جائے گا ۔حضر ت اسماء رض کہتی ہیں کہ یہ
بیان فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ضرورت سے باہر تشریف لے گئے
اسکے بعد لوٹ کر دیکھا تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس بیان کے بعد
سے بڑے فکر و غم میں پڑے ہوئے تھے ۔اسماءکہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے دروازہ کے دونوں کواڑ پکڑ کر فرمایا اسماءکہو کیا حال ہے ؟میں نے
عر ض کیا یارسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم دجال کا ذکر سن کر ہمارے دل تو
سینے سے نکلے پڑتے ہیں اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ
میری زندگی میں ظاہر ہوا تو میں اس سے نمٹ لوں گا ورنہ میرے بعد پھر ہر
مومن کا نگہبان میرارب ہے میں نے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
ہمارا حال جب آج یہ ہے کہ ہم آٹا گوندھنا چاہتے ہیں مگر غم کے مارے اس کو
اچھی طرح گو ندھ بھی نہیں سکتے چہ جائے کہ روٹی پکاسکیں بھوکے ہی رہتے
ہیں تو بھلا اس دن مومنوں کا حال کیا ہو گا جب یہ فتنہ آنکھوں کے سامنے آ
جائے گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس دن ان کو وہ غذا کافی ہو گی
جو آسمان کے فرشتوں کی ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی تسبیح وتقدیس۔(احمد)

دجال کی بدخلقی

دجال قوم یہود میں سے ہو گا عوام میں اس کا لقب مسیح ہو گا دائیں آنکھ
میں پھلی ہو گی ۔گھونگر دار بال ہوں گے ۔سواری میں ایک بڑا گدھا ہو گا
اولاً اس کا ظہور ملک عراق و شام کے درمیان ہو گا۔جہاں نبوت و رسالت کا
دعویٰ کرتا ہو گا پھر وہاں سے اصفہان چلاجائے گا یہاں اس کے ہمراہ ستر
ہزار یہودی ہوں گے یہیںسے خدائی دعویٰ کرکے چاروں طرف فساد برپا کرے
گا۔اور زمین کے اکثر مقامات پر گشت کرکے لوگوں سے اپنے تئیںخدا کہلوائے
گا ۔

دجال کی جادو گریاں اور مومنوں کی آزمائش

لوگوں کی آزمائش کیلئے خداوند کریم اس سے بڑے خرق عادات ظاہر کرائے گا اس
کی پیشانی پر لفظ (ک،ف،ر)لکھا ہوگا جس کی شناخت صرف اہل ایمان کر سکیں گے
اس کے ساتھ ایک آگ ہو گی جس کو دوزخ سے تعبیر کرے گا اور ایک باغ جو جنت
کے نام سے موسوم ہو گا مخالفین کو آگ میں موافقین کو جنت میں ڈالے گا مگر
وہ آگ درحقیقت باغ کے مانند ہو گی اور باغ آگ کی خاصیت رکھتا ہو گا نیز
اس کے پاس اشیائے خوردنی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہو گا جس کو چاہے گا دے گا
جب کوئی فرقہ اس کی الوہیت کو تسلیم کریگا تو اس کیلئے اس کے حکم سے بارش
ہو گی انا ج پیدا ہوگا درخت پھلدار مویشی موٹے تازے اور شیردار ہو جائیں
گے ۔جو فرقہ اس کی مخالفت کرے گا تو اس سے اشیائے مذکورہ بند کردے گا اور
اسی قسم کی بہت سی ایذائیں مسلمانوں کو پہنچائے گا مگر خدا کے فضل سے
مسلمانوں کو تسبیح و تہلیل کھانے پینے کا کام دے گی اس کے خروج کے بیشتر
دو سال تک قحط رہ چکا ہوگا تیسرے سال دوران قحط ہی میں اس کا ظہور ہوگا
زمین کے مدفون خزانے اس کے حکم سے اس کے ہمراہ ہو جائیں گے بعض آدمیوں سے
کہے گا کہ میں تمھارے مردہ ماں باپوں کو زندہ کرتا ہوں تاکہ تم اس قدرت
کو دیکھ کر میری خدائی کا یقین کر لو پس شیاطین کو حکم دے گا کہ زمین میں
سے ان کے ماں باپوں کے ہم شکل ہو کر نکلوچنانچہ وہ ایساہی کرینگے۔

دجال مکہ و مدینہ میں داخل نہ ہو سکے گا

اس کیفیت سے بہت سے ممالک پر اس کا گزر ہو گا یہاں تک کہ وہ جب سرحد یمن
میں پہنچے گا اور بددین لوگ بکثرت اس کے ساتھ ہو جائیں گے تو وہاں سے لوٹ
کر مکہ معظمہ کے قریب مقیم ہو جائے گا مگر بسبب محافظت فرشتوں کے مکہ
معظمہ میں داخل نہ ہو سکے گا پس وہاں سے مدینہ منورہ کا قصد کرے گا اس
وقت مدینہ کے سات دروازے ہوں گے ہر دروازے کی محافظت کیلئے خداوند کریم
دو دو فرشتے متعین فرمائے گا جن کے ڈر سے دجال کی فوج داخل شہر نہ ہو سکے
گی نیز مدینہ منورہ میںتین مرتبہ زلزلہ آئے گا جس کی وجہ سے بدعقیدے و
منافق لوگ خائف ہو کر شہر سے نکل کر دجال کے پھندے میں گرفتار ہو جائیں
گے ۔

مدینہ کے ایک بزرگ کے ہاتھوں دجال کی رسوائی

اس وقت مدینہ منورہ میں ایک بزرگ ہوں گے جو دجال سے مناظرہ کرنے کیلئے
نکلیں گے دجال کی فوج کے قریب پہنچ کر ان سے پوچھیں گے کہ دجال کہاں ہے
وہ اس کی گفتگو کو خلاف ادب سمجھ کر قتل کرنے کاقصد کریں گے مگر بعض ان
میں قتل سے مانع ہوں گے اور کہیں گے کیا تم کو معلوم نہیں کہ ہمارے اور
تمھارے خدا ( دجال) نے منع کیا ہے کہ کسی کو بغیر اجازت کے قتل نہ کرنا ۔
پس وہ دجال کے سامنے جاکر بیان کریں گے کہ ایک گستاخ شخص آیا ہے اور آپ
کی خدمت میں حاضر ہونا چاہتا ہے دجال ان کو اپنے پاس بلائے گا جب وہ بزرگ
دجال کے چہرے کو دیکھیں گے تو فرمائیں گے میں نے تجھے پہچان لیا تو وہی
ملعون ہے جس کی پیغمبر خدصلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی تھی اور تیری
گمرائی کی حقیقت بیان فرمائی تھی دجال غصہ میں آ کر کہے گا کہ اس کو آرے
سے چیر دو بس وہ آپکو ٹکڑے کرکے دائیں بائیں جانب ڈال دیں گے پھر دجال
خود ان دونوں ٹکڑوں کو جمع کرکے زندہ ہونے کا حکم دے گا چنانچہ وہ خدائے
قدوس کی حکمت وارادے سے زندہ ہو کر کہیں گے کہ اب تو مجھ کو پورا یقین
ہوگیا تووہی مردود دجال ہے کہ جس کی ملعونیت کی خبر پیغمبرخدصلی اللہ
علیہ وسلم نے دی تھی ۔دجال جھنجھلا کراپنے معتقدین کو حکم دے گا کہ اس کو
ذبح کر دو پس وہ آپ کے حلق پرچھری پھیریںگے مگر اس سے آپ کو کوئی ضرر نہ
پہنچے گا ۔دجال شرمندہ ہو کر ان بزرگ کو اپنی دوزخ میں جس کا ذکر اوپر
گزر چکا ڈال دے گا مگر خدا وند کریم کی قدرت سے وہ آپ کے حق میں بردو
سلام ہو جائیگی اس کے بعد دجال کسی مردہ کے زندہ کرنے پر قدرت نہ پائے گا
اور یہاں سے ملک شام کی جانب روانہ ہو جائے گا۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول

دجال کے دمشق پہنچنے سے پہلے حضر ت امام مہدی علیہ السلام دمشق آ چکے ہوں
گے اور جنگ کی پوری تیاری و ترتیب فوج کر چکے ہوں گے جنگ کا سازو سامان و
آلات تقسیم ہوں گے کہ موذن عصر کی اذان دے گا لوگ نماز کی تیاری ہی میں
ہوں گے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دو فرشتوں کے کاندھوں پر تکیہ کئے
آسمان سے دمشق کی جامع مسجد کے شرقی منارہ پر جلوہ افروز ہو کر آواز
دیںگے کہ سیڑھی لے آؤ پس سیڑھی حاضرکر دی جائے گی۔