سجدے کے احکام:
(١) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:''جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ اپنے دونوں ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھے۔''
(ابوداود' الصلاة' باب کیف یضع رکبتیہ قبل یدیہ' حدیث ٨٤٠۔ امام نووی اور زرقانی نے اس کی سند کو جید کہا ہے۔)
سجدہ میں گھٹنے پہلے رکھنے والی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت کو ابوداؤد ٨٣٨ امام دار قطنی' بیھقی اور حافظ ابن حجر نے ضعیف کہا ہے۔ جب کہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ' ہاتھ پہلے رکھنے والی روایت صحیح ہے اور ابن عمر کی درج ذیل حدیث اس پر شاہد ہے: نافع رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر y اپنے ہاتھ گھٹنوں سے پہلے رکھتے اور فرماتے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے۔
(ابن خزیمة ١/ ٣١٩ حدیث ٦٢٧' مستدرک ١/ ٢٢٦ اسے حاکم ذہبی اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔)
گھٹنوں سے پہلے ہاتھ رکھنے کو امام اوزاعی' مالک' احمد بن حنبل اور شیخ احمد شاکر رحمہم اللہ نے اختیار کیا ہے۔ ابن ابی داؤد نے کہا: میرا رجحان حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف ہے کیونکہ اس بارے میں صحابہ اور تابعین سے بہت سی روایات ہیں۔
(٢) رسول اللہ ۖ نے سجدے میں دونوں ہاتھوں کو کندھوں کے برابر رکھا۔
(ابوداود' الصلاة' باب افتتاح الصلاة حدیث ٧٣٤۔ اسے امام ابن خزیمہ ٦٤٠ اور ترمذی نے صحیح کہا ہے۔)
(٣) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمنے سجدہ میں اپنے سر کو دونوں ہاتھوں کے درمیان میں رکھا۔
(ابوداود' الصلاة' باب رفع الیدین فی الصلاة' حدیث ٧٢٦۔ اسے امام ابن حبان حدیث ٤٨٥ نے صحیح کہا ہے۔)
(٤) سجدے میں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے سے ملا کر رکھیں۔اور انہیں قبلہ رخ رکھیں۔
(حاکم' ١/٢٢٧ بیھقی ٢/ ١١٢ حاکم اور ذہبی نے اسے صحیح کہا ہے۔)
(٥) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ میں اپنی ہتھیلیوں ' گھٹنوں اور انگلیوں کے سروں کو زمین پر ٹکایا۔
(ابوداود' الصلاة' باب افتتاح الصلوة' حدیث ٨٥٩اسے امام ابن خزیمہ نے صحیح کہاہے۔)
(٦) نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس شخص کی نماز نہیں جس کی ناک پیشانی کی طرح زمین پر نہیں لگتی۔
(دار قطنی ١/٣٤٨۔ اسے حاکم اور ابن جوزی نے صحیح کہا ہے۔)
(٧) سجدے میں ایڑیوں کو ملائیں۔
(بیھقی ٢/١١٦۔ اسے ابن خزیمہ حدیث ٦٥٤ حاکم ١/٢٢٨ اور ذہبی نے صحیح کہا ہے۔)
(٨) ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤں کو بغلوں سے نہ ملاتے تھے۔
(ابوداود' الصلوٰة' باب افتتاح الصلاة' خدیث ٧٣٠ ۔٧٣٤ ترمذی' الصلوة' باب ماجاء فی وصف الصلوة (حدیث ٣٠٤) اسے امام ترمذی اور ابن خزیمہ نے صحیح کہا ہے۔)
(٩) سجدے کی حالت میں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کلائیوں کو زمین پر نہیں لگاتے تھے بلکہ انہیں اٹھا کر رکھتے اور پہلوؤں سے دور رکھتے یہاں تک کہ پچھلی جانب سے دونوں بغلوں کی سفیدی نظر آتی تھی اور پاؤں کی انگلیوں کے سرے قبلے کی طرف مڑے ہوئے ہوتے تھے ۔
(بخاری صفة الصلوة'(الاذان) باب سنة الجلوس فی التشھد' حدیث ٨٢٨۔ و مسلم' الصلاة' باب الاعتدال فی السجود' حدیث ٤٩٣)
(١٠) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ''مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پرسجدہ کروں پیشانی اور آپ نے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا دونوں ہاتھوں' دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں کے پنجوں پر اور (یہ کہ ہم نماز میں) اپنے کپڑوں اور بالوں کو اکھٹا نہ کریں۔''
(بخاری' صفة الصلوة' (الاذان) باب السجود علی الانف حدیث ٨١٢' ومسلم' الصلاة' باب اعضاء السجود حدیث ٤٩٠)
ہر بہن بھائی کے لئے ضروری ہے کہ وہ سجدہ میں ان سات اعضاء کو خوب اچھی طرح (مکمل طور پر) زمین پر ٹکا کر رکھیں اور اطمینان سے سجدہ کریں۔
عورتیںسجدے میں بازو نہ بچھائیں:
بہت سی عورتیں سجدہ میں بازو بچھا لیتی ہیں۔ اور پیٹ کو رانوں سے ملا کر رکھتی ہیں اور دونوں قدموں کو بھی زمین پر کھڑا نہیں کرتیں۔ واضح ہو کہ یہ طریقہ رسول اﷲۖ کے فرمان اور سنت پاک کے خلاف ہے سنئے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ''تم میں سے کوئی (مرد یا عورت) اپنے بازو سجدے میں اس طرح نہ بچھائے جس طرح کتا بچھاتا ہے۔''
(بخاری الاذان باب لا یفترش ذراعیہ فی السجود' حدیث ٨٢٢۔ و مسلم' الصلاة' باب الاعتدال فی السجود' حدیث ٤٩٣)
نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے صاف عیاں ہے کہ نمازی (مرد یا عورت) کو اپنے دونوں ہاتھ زمین پر رکھ کر دونوں کہنیاں ( یعنی بازو) زمین سے اٹھا کر رکھنے چاہئیں نیز پیٹ بھی رانوں سے جدا رہے اور سینہ بھی زمین سے اونچا ہو۔ میری معزز مسلمان بہنو! اپنے پیارے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق نماز پڑھو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اگر بکری کا بچہ بانہوں کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو گزر سکتا تھا۔
(مسلم' الصلاة' باب الاعتدال فی السجود' حدیث ٤٩٤)
بعض لوگ یہ فضول عذر پیش کرتے ہیں کہ اس طرح سجدے میں بی بی کی چھاتی زمین سے بلند ہو جاتی ہے جو بے پردگی ہے حالانکہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے عورت کے لیے اوڑھنی کو لازم قرار دیا ہے یہ اوڑھنی دوران سجدہ بھی پردے کا تقاضہ پورا کرتی ہے پھر آج کی کوئی خاتون صحابیات رضی اﷲ عنہنَّ کی غیرت اور شرم و حیا کو نہیں پہنچ سکتی جب انہوں نے ہمیشہ سنت کے مطابق نماز ادا کی تو آج کی خاتون کو بھی انہی کی راہ چلنی چاہیے
نہایت درجہ قرب الہٰی:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''دراصل بندہ سجدہ کی حالت میں اپنے رب سے بہت نزدیک ہوتا ہے۔ پس (سجدے میں) بہت دعا کرو۔''
(مسلم' الصلاة' باب مایقال فی الرکوع والسجود ۔حدیث٤٩٦)
اللہ تعالی تو بندے سے ہر حال میں نزدیک ہوتا ہے لیکن سجدے کی حالت میں بندہ اس کے بہت نزدیک ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں بڑی عاجزی اور اخلاص سے دعائیں مانگتے تھے۔
Bookmarks