جس سے بندھے تھے دونوں، وہ غم نہیں رہے ہیں
تم، تم نہیں رہے ہو، ہم، ہم نہیں رہے ہیں
لمحوں کے پیڑ پر ہیں، کچھ پھول درد و غم کے
جیون میں اب خوشی کے موسم نہیں رہے ہیں
راہوں میں اب کھڑا ہوں، پھیلائے ہاتھ خالی
غم تھے میرا اثاثہ اور غم نہیں رہے ہیں
چاہت کے گیت میں ہے کوئی کمی یقینا
آخر تیرے میرے سُر جم کیوں نہیں رہے ہیں
رو رو کے تیرے دُکھ صحرا سا ہوگیا ہوں میں
اب آنکھ کے کنارے بھی نم نہیں رہے ہیں
تو اور سمت میں ہے، میں اور سمت میں ہوں
اُلفت کے راستے اب باہم نہیں رہے ہیں
فکرِ معاش نے تو جذبوں کو روند ڈالا
عاشق وگرنہ ہم بھی کچھ کم نہیں رہے ہیں
تم ہی تھے میری دُنیا، تم ہی مری محبت
تم جو نہیں تو دونوں عالم نہیں رہے ہیں
Bookmarks