سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں 60 ارب روپے سے زائد کے قرضے معاف کرانے والوں کی فہرست منظر عام پر آگئی ، 1985 ء سے 1999 ء تک 120 ارب روپے کے قرضے معاف کرائے گئے۔ جبکہ دیگر ارکان نے اس وقت نیشنل بینک اور یونائیٹڈ بینک آف پاکستان سمیت تین بینکوں سے بارہ کروڑروپے کے قرضے خاموشی کے ساتھ معاف کرالئے، جب وہ برسراقتدار تھے۔ یہ انکشاف قومی اسمبلی کی لائبریری کے سرکاری ریکارڈ میں کیا گیا ہے جس سے باضابطہ طور پر حقیقت اس کی تصدیق ہو گئی ہے کہ متعدد بااثر سیاستدانوں اور ان کے اہل خانہ نے متعدد بینکوں سے لئے گئے قرضے اپنی شوگر ملز ٹیکسٹائل ملز اور دیگر صنعتی یونٹوں کے لئے لئے گئے قرضے خاموشی کے ساتھ معاف کرالئے۔ یہ بینک قرضے ماضی میں زیادہ تر سرکاری نیشنل بینک آف پاکستان اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی جانب سے معاف کئے گئے۔دی نیوز کو دستیاب سرکاری ریکارڈ سے جو نیشنل اسمبلی میں گزشتہ ایک دہائی کے حوالے سے پیش کیا گیا یہ لرزہ خیز انکشاف ہوتا ہے کہ 1985ء سے 2002ء کے دوران مجموعی طور پر30ارب روپے کے قرضے معاف کئے گئے جو بااثر سیاستدانوں اور طاقتور صنعتی گروپوں پرواجب الادا تھے۔ کچھ قرضے بینکاری قوانین کے مطابق درست طور پر معاف کرائے گئے جبکہ بڑی تعداد میں ملی بھگت تھی ۔یہ فہرست 1993ء میں اس وقت کی معین قریشی کی زیر قیادت نگراں حکومت نے مرتب کی تھی جبکہ 2007ء میں آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ 2002ء سے2007ء کے دوران مشرف حکومت نے 54 ارب روپے معاف کئے اس طرح معاف کرائی جانے والی کل رقم 85ارب روپے بنتی ہے لیکن قومی اسمبلی میں حال ہی میں وقفہ سوالات میں بتایا گیا کہ معاف کرائے گئے قرضوں کی رقم پی پی پی کے حالیہ دور میں معاف کئے گئے قرضوں کو ملا کر ایک کھرب روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔1985ء سے2002ء کے دوران قرضوں کی معافی کی بہتی گنگامیں اشنان کرنے والے افراد اور خاندانوں کی سرکاری فہرست سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے۔
کیا قرضے معاف کروانے والوں سے رقوم کی وصولی ممکن ہوسکے گی؟
Bookmarks