آغاز حقوق بلوچستان پیکیج
وفاقی حکومت نے آغازِ حقوق بلوچستان پیکیج پارلیمنٹ میں پیش کردیا ہے جس کے تحت بلوچستان میں دہشت گردی کیخلاف جنگ کے سوا تمام آپریشن اور نئی چھاؤنیوں کی تعمیر پر پابندی، سوئی سے فوج واپس بلانے، لاپتہ افراد کی تلاش کیلئے عدالتی کمیشن، فرنٹیئر کور اور کوسٹ گارڈز وزیراعلیٰ کے ماتحت، نواب اکبر بگٹی کے قتل کی تحقیقات کیلئے کمیشن قائم کرنے، ڈیرہ بگٹی کے بے گھر افراد کی بحالی کیلئے ایک ارب روپے فراہم، سنگین جرائم میں ملوث افراد کے علاوہ تمام سیاسی کارکنوں کو رہااور جلاوطن رہنماؤں کی واپسی کی سفارشات اور تجاویز دی گئی ہیں۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سینیٹر رضا ربانی نے ’آغازِ حقوق بلوچستان‘پیکیج پیش کرتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ پیکیج صوبائی خودمختاری کا متبادل نہیں، وسائل پر صوبوں کا حق تسلیم کرلیا،پیکیج کے تحت صوبے کی ترقی کیلئے انتظامی، سیاسی اور مالیاتی اقدامات کئے جائیں گے، وسائل پر صوبوں کا حق تسلیم کیا گیا ہے جس کیلئے آئینی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات پر آئین میں ترمیم کی جائیگی، گوادر میں زمین کی تقسیم کی تحقیقات ہوگی، میگا پراجیکٹس میں گریڈ ایک سے 16 تک کی بھرتیوں میں مقامی لوگوں کو ترجیح دینے کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے فوری طور پر 5ہزار نئی آسامیوں کا انتظام کریگی، گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں بلوچستان کو 12 سال میں 120 ارب روپے جبکہ ڈیرہ بگٹی کے بے گھر ہونے والے افراد کی بحالی کیلئے ایک ارب روپے فراہم کئے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پیکیج میں سنگین جرائم میں ملوث افراد کے علاوہ تمام سیاسی کارکنوں کو فوری طور پر رہا کیا جائیگا۔ جلاوطن سیاسی رہنماؤں کو وطن واپسی کیلئے سہولیات فراہم کی جائینگی۔ انہوں نے بتایا کہ وفاق کی طرف سے صوبے کو 4 ارب 60 کروڑ روپے سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے تحت دیئے گئے ہیں اور 2 ارب 80 کروڑ روپے اوچ کی رائلٹی کیلئے بقایا جات کی مد میں دیئے گئے ہیں، یہ بقایا جات 1995ء سے بقایا تھے جبکہ بلوچستان کے ذمہ اوور ڈرافٹ کے ساڑھے 17 ارب روپے معاف کر دیئے گئے تاہم ہمیں یہ ادراک ہے کہ یہ صوبائی خود مختاری کے متبادل نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کی تمام سیاسی قیادت سے مذاکرات کا آغاز کیا جائیگا تاکہ ان کو قومی دھارے میں لایا جا سکے۔ انتظامی معاملات کے حوالہ سے رضا ربانی نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے فوری طور پر وفاقی اداروں کے کردار کا جائزہ لیا جانا چاہئے اور دہشت گردی کیخلاف لڑنے کے علاوہ دیگر تمام آپریشن فوری طور پر روک دیئے جانے چاہئیں۔ وفاقی حکومت کو اعلان کرنا چاہئے کہ سوئی کے علاقے سے فوج کو واپس بلائی جائے اور ان کی جگہ ایف سی کے اہلکار تعینات کئے جائیں جو موجودہ حالات میں امن و امان برقرار رکھنے کیلئے کردار ادا کریں۔ انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کے حوالہ سے ایک کمیشن تشکیل دیا جانا چاہئے جس کی سربراہی بلوچستان کی اعلیٰ عدالت کے ایک جج کو دی جائے جبکہ اس میں وفاقی وزیر دفاع، وزیر داخلہ اور بلوچستان کے سیکرٹری داخلہ شامل ہوں۔ اس کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہونا چاہئے۔ لاپتہ افراد کے نام فوری طور پر سامنے لائے جائیں اور جن افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے اور جن پر کوئی الزامات نہیں ہیں ان کو رہا کیا جانا چاہئے ۔ جن افراد پر الزامات ہوں ان کو سات یوم کے اندر اندر عدالت میں پیش کیا جانا چاہئے، ان افراد کو ان کی مرضی کے وکلا کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ ان کے خاندان کے افراد کو بھی ان سے ملاقات کی اجازت دی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کے سیاسی کارکنوں غلام محمد، لالا منیر اور منیر احمد کے قتل کے علاوہ صوبہ میں ٹارگٹ کلنگ کی عدالتی تحقیقات کا حکم دیدیا ہے جبکہ نواب اکبر بگٹی شہید کے قتل کے حقائق جاننے کیلئے سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں فیکٹ فائنڈنگ کمیشن قائم کیا جائیگا، فی الوقت صوبہ بلوچستان کے علاقوں سوئی اور کوہلو میں فوجی چھاؤنیاں تعمیر کرنے کا کام روک دیا گیا ہے اور سوئی میں ایف سی کو ڈیوٹی حوالے کرنے کے بعد فوج واپس بلائی جائیگی جبکہ تعمیر شدہ چھاؤنیوں کو بھی ایف سی کے حوالے کیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی طرف سے ”بی“ علاقوں کو ”اے“ علاقوں میں تبدیل کرنے کے فیصلہ کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیا جائے گا جبکہ شہری علاقوں میں ریگولر پولیس تعینات کی جائے گی۔ انہوں نے سول آرمڈ فورسز کے کردار کے حوالہ سے کہا کہ قانون نافذ کرنے کے سلسلہ میں ایف سی وزیراعلیٰ کے ماتحت کام کرے گی اور اسے کسٹم ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات واپس لئے جائیں گے۔ اس طرح کوسٹ گارڈ سرحدوں اور ساحلی علاقوں میں اسلحہ اور منشیات اسمگلنگ کی نگرانی کا کام کرے گی اور قانون سے ماوراء ان کی قائم کردہ چیک پوسٹوں کو ختم کرایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سرحدوں کی موٴثر نگرانی کو یقینی بنانے کیلئے وفاقی و صوبائی حکومت اور ایف سی کی طرف سے سرحدوں کی دوبارہ حد بندی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گوادر میں اراضی کی الاٹمنٹ کے حوالہ سے اعلیٰ عدلیہ کے ذریعے انکوائری کی جائیگی۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعلیٰ بلحاظ عہدہ گوادر پورٹ اتھارٹی کے چیئرمین ہوں گے، بورڈ آف ڈائریکٹرز میں صوبے سے 7 ارکان کو شامل کیا جائے گا جبکہ گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کی نامزدگی صوبائی حکومت کریگی۔ انہوں نے کہا کہ سوئی کے علاقے کے لئے ایک خصوصی ترقیاتی پیکیج پیش کیا جانا چاہیے‘ مسلح افواج کو ایک طریقہ کار کے مطابق علاقے سے نکالا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت صوبے کے لئے ملازمت کی پانچ ہزار آسامیاں فوری طور پر پیدا کرے گی‘ سرکاری ملازمت بالخصوص فارن سروس‘ نیم سرکاری‘ خود مختار‘ کارپوریشنوں اور دوسرے اداروں میں ملازمت کے لئے صوبائی کوٹے پر قواعد اور قانون کے مطابق عمل کیا جائے گا اور اس حوالے سے کسی بھی قسم کی تفریق کا ازالہ کیا جائے گا۔ پیکیج کے حوالے سے سفارشات میں کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت‘ صوبائی حکومت اور دیگر ایسے ادارے اور محکمہ جو ان سفارشات پر عملدرآمد کے ذمہ دار ہونگے وہ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو ماہانہ بنیادوں پر عملدرآمد کی صورتحال کے بارے میں بریفنگ دیں گے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ہر تین ماہ بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔ ”آغازِ حقوق بلوچستان پیکیج“ 11 صفحات پر مشتمل ہے جس میں 39 شقیں ہیں‘ آئینی امور سے متعلق تین‘ سیاسی معاملات سے متعلق پانچ اور انتظامی معاملات سے متعلق تیرہ جبکہ اقتصادی اُمور پر شقوں کی تعداد 14ہے۔
کیاآغاز حقوق بلوچستان پیکیج سے بلوچستان کے حالات میں بہتری آسکے گی؟
کیا اس پیکیج سے بلوچ عوام کا احسا س محرومی دور ہوسکے گا؟
Bookmarks