مرتے ہیں تیری نرگسِ بیمار دیکھ کر
جاتے ہیں جی سے کس قدر آزار دیکھ کر
افسوس وے کہ منتظر اک عمر تک رہے
پھر مر گئے ترے تئیں اک بار دیکھ کر
دیکھیں جدھر وہ رشکِ پری پیشِ چشم ہے
حیران رہ گئے ہیں یہ اسرار دیکھ کر
جاتا ہے آسماں لیے کوچے سے یار کے
آتا ہے جی بھرا درودیوار دیکھ کر
ترے خرامِ ناز پہ جاتے ہیں جی چلے
رکھ ٹک قدم زمیں پہ ستم گار دیکھ کر
جی میں تھا اس سے ملیے تو کیا کیا نہ کہیے میر
پر جب ملے تو رہ گئے ناچار دیکھ کر
Bookmarks