Results 1 to 3 of 3

Thread: ترقی پسندی اور رجعت پسندی،دومتضاد نظرئیے

  1. #1
    Kartos Khan's Avatar
    Kartos Khan is offline Senior Member+
    Last Online
    30th June 2010 @ 11:58 AM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    Saudi Arabia
    Age
    45
    Posts
    90
    Threads
    27
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default ترقی پسندی اور رجعت پسندی،دومتضاد نظرئیے

    ترقی پسندی اور رجعت پسندی،دومتضاد نظرئیے

    ہمارے ہاں دواصطلاحات ترقی پسندی اور رجعت پسندی طویل عرصہ سے استعمال ہورہی ہیں ۔معاشرے کا دین بیزار،سیکولر اور لبرل طبقہ اپنے آپ کو ترقی پسند کہلاتا ہے۔اور اس کے مقابلہ میں دیندار طبقہ کو تہذیب جدید سے ناآشنا ،تنگ نظر ،جاہل اور غیر ترقی یافتہ سمجھتے ہوئے رجعت پسند یا بنیاد پرست سمجھتا ہے ۔جہاد افغانستان کے بعد جب امریکہ نے مجاہدین کی سرگرمیوں سے خطرہ محسوس کرنا شروع کیا تو ان کا بدنام کرنے کے لئے بنیاد پرست ،رجعت پسند ،اور انتہاءپسند جیسی اصطلاحات بکثرت استعمال کرنی شروع کردیں جن سے مجاہدین کے جاہل ،غیر مہذب اور ڈاکو ہونے کا تاثر دیا جاتا جبکہ خود اپنے لئے امریکہ اور مغربی اقوام ترقی یافتہ اقوام جیسے الفاظ استعمال کرتی ہیںجن سے ان کی مراد مہذب ،وسیع النظر اور پڑھی لکھی اقوام ہیں۔

    ہم یہاں ان دومختلف فلسفوں کا پس منظر مختصرالفاظ میں بیان کرنا چاہتے ہیں ۔
    اٹھارویں اور انیسویں صدی میں غلبہ حاصل کرنے والی مغربی اقوام نے ہےگل کے فلسفہ تاریخ کی روشنی میں ترقی کے مفہوم کا تعین کیا ۔ہےگل کا فلسفہ یہ تھا کہ جب کوئی قوم اس دنیا میں غالب آتی ہے تو اس کی تہذیب کی خوبیاں اور خامیاں دونوں نمایاں ہوکر سامنے آتی ہیں ،لیکن جب اس قوم کو زوال آتا ہے تو اس تہذیب کی خوبیاں ،باقی رہتی ہیں اور خامیاں مٹ جاتی ہیں اور ان خامیوں کی جگہ کچھ دوسرے اعلیٰ نظریات جگہ لے لیتے ہیں ۔اور یوں تہذیب جدید ،تہذیب قدیم کی نسبت زیادہ ترقی یافتہ اور خوب تر ہوتا ہے ۔انیسویں صدی میں ڈارون نے جو نظریہ ارتقاءپیش کیا اس کا خلاصہ بھی یہی تھا کہ اس رزم گاہ حیات میں بقاءصرف اسی کے لئے ہے جو خوب تر ہے اور جو کم تر ہے اس کے لئے فنا ہے ،یعنی کسی تہذیب کی بقاءاور غلبہ بذاتِ خود اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سب سے زیادہ اعلیٰ اور سب سے زیادہ افضل ہے ۔الفاظ کی معمولی کمی بیشی کے ساتھ یہی نظریہ مارکس نے بھی پیش کیا ۔ہےگل ،ڈارون اور مارکس کے یہ نظریات اہل مغرب کے ذہنوں پر اس طرح چھاگئے کہ ان کے نزدیک ہرگزرنے والا دن خامیوں ،کمزوریوں اور انحطاط کا حامل ہے اور ہر آنے والا دن خوبیوں ،اچھائیوں اور ترقی کاحامل ہے ،لہٰذا مغرب یا مشرق میں ہےگل ،ڈارون اور مارکس کے نظریہ کا پیرکار ہر شخص اپنے آپ کو ترقی پسند کہلانے میں فخر اور عزت محسوس کرتا ہے ۔

    دوسرا فلسفہ وہ ہے جو اسلام نے پیش کیا ہے۔

    زمانے کی قسم!انسان یقینا خسارے میں ہے ۔سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ،نیک اعمال کئے ،حق کی (ایک دوسرے کو )تاکید کی اور صبر کی تلقین کرتے رہے ۔“ (سورة العصر ،آیت 6-1)

    اس سورة کی رُو سے اہل ایمان کے علاوہ باقی سارے لوگوں کے لئے ہر آنے والا دن تنزل ،انحطاط ،خسارے اور گمراہیوں کا دن ہے ۔

    قرآن مجید کی اس آیت کی مزید تفسیر ،رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث شریف سے ہوجاتی ہے”میری امت میں بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے ،پھر ان لوگوں کازمانہ ہے ،پھر ان لوگوں کا جو ان کے بعد ہیں(یعنی تابعین)پھر ان کا زمانہ جوان کے بعد ہیں (یعنی تبع تابعین)ان کے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کی گواہی کوئی نہیں چاہے گا لیکن وہ خواہ مخواہ گواہی دیں گے ۔خیانت کریں گے ،لوگ ان پر اعتماد نہیں کریں گے ۔نذر مانیں گے ،لیکن پوری نہیں کریں گے ،اور (حرام مال کھاکھاکر )خوب موٹیں ہوں گے۔“(بخاری ،کتاب المناقب)

    ارشاد نبوی کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ ایمان ،عقیدہ ،اخلاق ،کردار ،شرافت ،انسانیت،امانت،دیانت ،تہذیب ،تمدن اور کلچر ہر اعتبار سے رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کا زمانہ مبارک ،بعد میں آنے والے سارے زمانوں سے اعلیٰ افضل ،مہذب ،ترقی یافتہ اور بہترین زمانہ ہے ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد جیسے جیسے زمانہ گزرتا جائے گا بگاڑ ،تنزل ،انحطاط اور فتنوں میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔لوگ ایمان ،عقیدہ ،اخلاق ،کردار ،شرافت،انسانیت ،تہذیب ،تمدن ،کلچر ہر اعتبار سے خسارے میں ہوں گے ۔ایک اور حدیث میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہی بات ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے ”ہر آنے والا دن تمہارے آج کے دن سے بدتر ہوگا۔“(بخاری)لہٰذا ہر مسلمان زندگی کے ہر معاملہ میں ہدایت اور راہنمائی کے لئے چودہ سو سالہ پرانی شریعت محمدی کی رجوع کرتا ہے اور اپنے آپ کو اس دین سے وابستہ سمجھتا ہے جس کی بنیاد پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے رکھی تھی ۔آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد خلافت راشدہ ،تابعین اور تبع تابعین کا زمانہ ہمارے لئے مثالی زمانہ ہے ۔اِس لحاظ سے ہر مسلمان کو نہ صرف رجعت پسند اور بنیاد پرستی اور رجعت پسندی پر زندگی بھر قائم رکھے ،اسی بنیاد پرستی پرموت دے اور قیامت کے روز اسی بنیاد پرستی پر دوبارہ اٹھائے ۔

    قارئین کرام !ترقی پسندی اور رجعت پسندی دو الگ الگ عقیدے اور الگ الگ نظرئیی ہیں ترقی پسند ہےگل،ڈارون اور مارکس کے پیروکار ہیں جبکہ رجعت پسند پیغمبر اسلام سرور عالم ،ہادی برحق حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم (فداہ امی و ابی )کے پیروکار ہیں ۔اب ہر مسلمان کو دوٹوک فیصلہ کرلینا چاہئے کہ وہ ترقی پسند کہلا کر ائمہ کفر کا ساتھ دینا چاہتا ہے یا رجعت پسند کہلا کر پیغمبر اسلام کا ساتھ دینا چاہتا ہے :

  2. #2
    Doctor is offline Senior Member+
    Last Online
    13th September 2009 @ 08:57 AM
    Join Date
    26 Sep 2006
    Location
    Alkamuniya
    Age
    52
    Posts
    21,458
    Threads
    1525
    Credits
    1,000
    Thanked
    36

    Default

    Vary Nice Janab

  3. #3
    Lucky Noor's Avatar
    Lucky Noor is offline Senior Member
    Last Online
    27th September 2017 @ 04:28 PM
    Join Date
    18 Apr 2006
    Location
    WitH Y@U
    Posts
    2,719
    Threads
    220
    Credits
    70
    Thanked
    22

    Default

    Bohat zabardast.........Jazakumullah Khair.

Similar Threads

  1. Replies: 24
    Last Post: 9th July 2020, 09:09 PM
  2. Replies: 14
    Last Post: 14th January 2014, 09:33 PM
  3. Replies: 2
    Last Post: 25th December 2009, 08:09 PM
  4. Replies: 19
    Last Post: 7th December 2009, 02:30 PM
  5. Replies: 1
    Last Post: 24th October 2009, 09:35 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •