Aslam-o-Alaikum
Dostoon Umeed Hai Ap Ko Pasand Ayega Apni Opinion sy zroor agah kijigia.
Thanks
موبائل فون اور چھپے کیمرے
خواتین اپنی حفاظت خود کریں
شیطانی ذہنیت کے حامل لوگوں سے بچاؤ کی چند تدابیر
لڑکی چیخ رہی تھی '' میں مرنا چاہتی ہوں' میں مرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔۔'' گھر والوں نے اسے پکڑ رکھا تھا۔ لڑکی نے کمر بند سے لٹک کر پھندا گلے میں ڈالا اور خود کشی کی کوشش کی۔ کمر بند ٹوٹ گیا۔ وہ کرسی جس پر لڑکی گری ہوئی تھی، پھسل گئی اور وہ خود کشی میں کامیاب نہ ہو سکی۔ گھر والوں نے بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ وہ سمجھے جن چڑھ گیا ہے۔ دو مرتبہ بابا کے پاس لے گئے۔ میڈیکل اسٹور سے خواب آور گولیاں لاکر کھلائیں لیکن وہ جاگنے پر مسلسل اپنے آپ کو مارنے کا کہتی۔۔۔۔۔۔ روتی۔ کسی کے مشورے پر وہ نفسیات کے ماہر کے پاس لے آئے۔ انہوں نے اکیلے میں جب لڑکی سے اعتماد کے ساتھ باربار بات کی ، اسے فوری پریشانی سے افاقے کے لئے دوادی تو اس نے بتایا ''میں نے انٹر کا امتحان اچھے نمبروں سے پاس کیا ہے، ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں' میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جائے گا۔ میں شروع ہی سے شوخ طبیعت ہوں۔ خاندان میں ' سہیلیوں میں' کلاس فیلوز میں کہیں بھی شادی ہو' مہندی و دیگر تقریبات میں بھر پور شرکت کرتی ہوں۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔لیکن آپ گھر والوں کو تو نہیں بتائیں گے؟'' وہ رو ہانسی ہو کر بولی۔ اطمینان دلانے پر اس نے بتایا''میں ایک سہیلی کے بھائی کی شادی میں گئی اس کا بھائی میرا کلاس فیلو بھی ہے ۔ انہوں نے فرمائش پر لڑکیوں کی Gatheringمیں ڈانس کرایا۔ رات کو دیر ہوگئی، میں سہیلی کے گھر رک گئی، کسی نے میرے کپڑے تبدیل کرتے ہوئے اور اکیلا سوتے ہوئے موبائل سے میری فلم بنالی۔ سہیلی کے بھائی کے دوست نے مجھے یہ ایس ایم ایس کردی اور بلیک میل کرنا شروع کیا۔ ڈاکٹر صاحب امی مجھے ہمیشہ منع کرتی تھیں۔ اب میں انہیں کیا بتاؤں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے! وہ کہتے ہیں تم بس آدھے گھنٹے کےلئے ہم سے مل لو یا پچاس ہزار روپے دے دو۔ ہم اسے آگے ایس ایم ایس نہیں کریں گے۔'' لڑکی کے ایک ماموں کو' جو سمجھدار تھے 'اعتماد میں لے کر اس لڑکے تک رسائی کی۔ انہوں نے وہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح حل کرادیا۔ لڑکی کا کچھ دن علاج ہوا ۔ وہ بہتر ہونے لگی۔
شادی بیاہ کی تقریبات' مہندی' مایوں' ابٹن ' رت جگا' منگنی وغیرہ میں بعض لڑکیاں آپس کی محفل میں ایسی حرکتیں کر جاتی ہیں مثلاً ناچنا' ایسے کم لباس پہن کر ایکٹ کرنا جو وہ اس محفل کے علاوہ ناپسند کریں ' لڑکوں کے کپڑے (بھائیوں وغیرہ کے) پہن کر ڈانس کرلینا وغیرہ۔ ایسی باتیں یا گانے گالینا جو وہ اپنی کسی رشتہ دار وغیرہ کے سامنے گانے یا ایکٹ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتیں، موبائل میں کیمرے سے اس کی ریکارڈنگ کے کیسز سامنے آرہے ہیں۔ اس لڑکی کی طرح لڑکیاں ان ویڈیوز کے عام ہونے پر ڈپریشن کا شکار ہو کر خودکشی کا سوچتی ہیں۔ معاشرے میں ان تقریبات میں کیا اور کتنا ہوناچاہےے؟ یہ ایک سوال ہے جو لڑکیوں' ان کے بھائیوں ' اہل خانہ 'بزرگوں سب کے لئے لمحہء فکریہ ہے۔ اپنی بچیوں کو نفسیاتی مریض بننے سے روکنے کےلئے ان تقریبات کے انداز میں تبدیلی کرنی چاہےے اور لڑکیوں کو لڑکیوں کی محفل میں بھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہےے جس کی Movieآنے کے بعد وہ ہو جو اس لڑکی کے ساتھ ہوا۔ کیوں کہ بہت سے ملتے جلتے واقعات اکثر ڈاکٹرز کے پاس آتے رہتے ہیں۔ لڑکیوں کو اپنی سہیلیوں وغیرہ کے گھر شادی کی تقریبات میں رکنے سے پرہیز کرنا چاہےے، اگر رکنا بھی پڑے تو لباس ایسے کمرے میں تبدیل کریں جو اندر سے بند ہو سکتا ہو ، کھڑکی پر پردہ ہو اور کمرے کی لائٹ بند کر کے ایسے کونے میں تبدیل کریں جہاں روشنی بہت ہی کم ہو ، مثلاً الماری کے پیچھے سائیڈ میں ۔۔۔۔۔۔ کم روشنی یا نیم اندھیرے میں مووی نہیں بن سکتی۔ یہ آسان سی احتیاط بہت بڑے مسئلے سے بچا سکتی ہے۔ کسی اور کے گھر سے اپنے گھر کو ترجیح دیں۔ اسی طرح بہت کم روشنی والے باتھ روم میں غسل کریں۔ احتیاط رکھیں کہ روشن دان بند ہو۔ ان آسان احتیاطوں سے ممکنہ مشکلات سے بچا جا سکتا ہے۔
ایک میاں بیوی خود کشی کے لئے ایک جگہ پہنچے۔ انہیں بچا لیا گیا۔ پتا چلا کہ شادی چند دن ہی پہلے ہوئی ہے۔ زندگی کے یاد گار لمحات انہوں نے موبائل سے مووی بنا کر محفوظ کےے تھے۔ ہنی مون کے لئے نکلے تو موبائل چھن گیا ، جس نے چھینا تھا اس نے بلیک میل کیا کہ یہ مووی وہ بیچ دے گا ورنہ بیوی کے سارے زیورات مجھے دے دو۔ اسی طرح کا اور واقعہ ہوا۔ منگنی میں کزن منگیتر نے چند ایسے پوز بنوالیے جو دیگر کزن مذاق میں کہتی رہیں یوں کرو۔۔۔۔۔۔ پھر ان کزن میں سے ایک کے بھائی کے ہاتھ وہ مووی لگ گئی، اس نے اپنے دوست کو دکھائی اور اس نے ایس ایم ایس کردی۔ مووی لڑکی کے بھائی کے پاس دبئی ایس ایم ایس ہوگئی اور عظیم خاندانی جھگڑا ہوا ۔ ایمرجنسی میں زبردستی شادی کرنا پڑی۔ بدنامی الگ ہو گئی۔
آج کل بیوٹی پارلر جانے کا رواج عام ہے۔ چند بیوٹی پارلز میں دلہنوں کی مووی موبائل کیمرے سے بنی اور دبئی گئی۔ یہ واقعات عام ہوچکے ہیں لیکن بس سننے کی حد تک ۔ بیوٹی پارلرز میں کام کرنے والی خواتین میں سے بہت سوں کے لباس ایسے ہیں جو ہمارے معاشرے سے Matchنہیں کرتے۔ شاہ فیصل کالونی' گلشن اقبال' ناظم آباد کے چند بیوٹی پارلرز میں پینٹ شرٹ' جس میں دوپٹہ نہ ہو' چست پینٹ'قمیض جسم کی کھال سے چپکی ہوئی بغیر آستین کی ۔۔۔۔۔۔ لڑکیاں آپس میں ایک دوسرے کی مووی بنالیتی ہیں۔ اسی طرح کی ایک لڑکی کا رشتہ آیا۔ اس لڑکے کو بیوٹی پارلر کی کسی لڑکی نے Seleeviesاور مختصر ترین کپڑوں کی تصویر ایس ایم ایس کردی۔ رشتہ بھی ختم ہوگیا، لڑکی بھی بدنام ہوگئی۔ یہ بہت اچھے گھرانے کی بچی تھی جو محض کام سیکھنے بیوٹی پارلر جاتی تھی اور مجبوراً لڑکیوں کے سامنے یہ لباس پہن لیتی تھی۔ اس کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ اس کی ساتھی کوئی لڑکی یا کلائنٹ جو آتی ہیں اس کی اس لباس میں تصاویربنا چکی ہیں۔ یہ غریب گھرانہ کافی ''نیک نام '' ہوا۔۔۔۔۔۔ بیوٹی پارلرز میں کام سیکھنے والی لڑکیوں کو احتیاط کرنی چاہےے اور بیوٹی پارلر کی مالکان کو اس پر Convinceکرنا چاہےے کہ وہ لڑکیوں کو زبردستی ایسا لباس نہ پہنوائیں جو ان کے لئے مسائل کا باعث بنے۔ اسی طرح لڑکیوں کو بیوٹی پارلر میں لباس تبدیل کرنے پر مجبور کرنا بھی۔۔۔۔۔۔ اس میں بھی شدید احتیاط کی ضرورت ہے۔ اگر لباس ایسا شائستہ ہو جو لڑکیان گھر سے پہن کر آسکیں تو بہت سی ممکنہ مشکلات سے' جو مووی موبائل سے یا تصویر کھینچنے سے ہو سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔ نجات مل جائے گی۔ خواتین کی نمائندہ تنظیموں اور خواتین کی بہبود کے حکومتی ادارے کو کام سےکھنے اور بیوٹی پارلر میں کام کرنے والی لڑکیوں کے مسائل کو حل کرنے کےلئے ضابطہ اخلاق اور قانون سازی پر توجہ دینی چاہےے۔ لڑکیوں میں بھی احتیاط کرنے کا شعور پیدا ہونا چاہےے۔
Bookmarks