سیدنا ابو ہریرہ (رض) سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم (ص) کے وصال مبارک کے بعد کسی ایک جمعرات کی صبح کو ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اونٹ پر سوار ایک سفید ریش بوڑھا آیا۔ اس نے اپنی سواری کو مسجد کے دروازے پر باندھا اور یہ کہتے ہوئے اندر داخل ہوا:
السلام علیکم و رحمۃ اﷲ! ھل فیکم محمد رسول اﷲ؟ (تاریخ ابن عساکر، 1 : 342)
”تم پر سلامتی اور اللہ کی رحمت نازل ہو، کیا تم میں اللہ کے رسول محمد(ص) موجود ہیں۔“
حضرت علی (رض) نے فرمایا:
ایہا السائل عن محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)! ماذا ترید منہ؟
”اے حضور (ص) کے بارے پوچھنے والے! تجھے آپ اسے کیا کام ہے؟“
اس نے کہا کہ میں یہودی علماء میں سے ہوں اور 80 سال سے تورات کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اس میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد(ص) کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے اور میں اس ذکر سے متاثر ہو کر آیا ہوں۔ اس نے سلسلہء کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔
و قد جئتُ اطلب الاسلام علی یدہ۔
”اور میں آپ (ص) کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کیلئے حاضر ہوا ہوں۔“
حضرت علی (رض) نے اسے بتایا کہ آپ (ص) کا تو وصال ہو چکا ہے۔ اس پر اس عالم نے افسوس کا اظہار شروع کر دیا اور کہا:
ھل فیکم قرابۃ محمد؟
”کیا تم میں ان کی اولاد ہے؟“
حضرت علی (رض) نے حضرت بلال (رض) سے کہا کہ اسے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس لے جاؤ۔ وہاں جا کر اس نے اپنا تعارف کروایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ (ص) کے کپڑوں میں سے کسی کپڑے کی زیارت کرناچاہتا ہوں۔ حضرت سیدہء عالم رضی اﷲٰ عنہا نے اپنے شہزادے امام حسین (رض) سے فرمایا:
ھاتِ الثوب الذی توفی فیہ رسول اﷲ، فجئ، فاخذہ الحبر والقاہ علی وجہہ وجعل یستنشق ریحہ، و یقول: بابی وامی من جسد نشف فیہ ھذا الثوب۔
”وہ کپڑا لاؤ جو آپ (ص) نے بوقتِ وصال پہنا ہوا تھا۔ جب وہ کپڑا لایا گیا تو اس عالم نے اسے اپنے چہرے پر ڈال لیا۔ وہ اس کی خوشبو کو سونگھتا اور خوشبو سونگھتے ہوئے بار بار کہتا کہ اس صاحبِ ثوب پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔“
اس کے بعد حضرت علی (رض) سے مخاطب ہو کر کہنے لگا:
صف لی صفۃ رسول اﷲ حتی کانی انظر الیہ۔
”حضور کے اوصافِ جمیلہ کا تذکرہ اس طرح کرو کہ گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔“
یہ بات سن کر حضرت علی (رض) اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔
فبکی علیّ بکاء شدیداً و قال: واﷲ! لان کنتَ مشتاقاً الی محمد فانا اشوق الی حبیبی منک۔ (تہذیب تاریخ دمشق الکبیر، 1 : 342،343)
”حضرت علی (رض) شدت کے ساتھ رو پڑے اور کہنے لگے: اے سائل خدا کی قسم! آپ (ص) کی زیارت کا جس قدر تجھے اشتیاق ہے مجھے اس سے کہیں بڑھ کر اپنے حبیب (ص) کی ملاقات کا شوق ہے۔“
بعد ازاں سیدنا علی المرتضیٰ (رض) نے حضور نبیء اکرم (ص) کے حلیہ اور سراپا مبارک کا ذکر بڑی تفصیل سے فرمایا، جس کی من و عن تصدیق اس یہودی عالم نے سابقہ کتب سماوی کی روشنی میں کی اور مسلمان ہو گیا۔
Bookmarks