جلد اول
جلد دوم
جلد سوئم
جلد چہارم
سب سے پہلے تو اللہ پاک کا شکر ہے کہ اس تھریڈ کے ساتھ میں نے ایک اور سنگ میل عبور کیا۔
پھر یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ جو تھریڈ میں پوسٹ کر رہا ہوں کئی دنوں میں سوچ رہا تھا کہ اب کروں اب کروں
پر کہاں میں اور کہاں یہ کام اب بھی اللہ کے کرم سے یہ پوسٹ کر رہا ہوں۔
قانون فطرت ہے کہ جب فضاء میں گرمی حد سے بڑھ جائے، گھٹن کے مارے سانس لینا مشکل ہوجائےاور حبس کی وجہ سے دم گھٹنے لگے رحمتِ حق متوجہ ہوتی ہےکہیں سے خوشگوار ہوا کا ایک جھونکا آتا ہےاور مایوس انسانوں کے چہروں پر خوشیاں بکھیردیتا ہےپھر آسمان پر بادلوں کی نقل وحرکت شروع ہوتی ہےاور تاحد نگاہ کالی گھٹا چھا جاتی ہےپانی کی بوندیں بارش شروع ہونے کا اعلان کرتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین جل تھل ہو جاتی ہے۔
بلکل اسی طرح جب فضا میں مایوسیوں کا راج تھاوساوس اور شکوک وشبہات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں نے زمینی اور آسمانی حقائق کوآنکھوں سے چھپا ڈالا تھاجن لوگوں کے دلوں میں بیماری اورکجی تھی اسے کبھی روشن خیالی کبھی ترقی ، کبھی ماڈرن اسلام اور کبھی فلسفہ ودانش کے لبادے میں پھیلا رہے تھےتمناؤں کے چراغ بجھ رہے تھے اور مایوسیوں کے اندھیرے بڑھ رہے تھےفریضہ جہاد کے صاف شفاف آئینے کو دھندلایا جاچکا تھااور دینی غیرت و حمیت کو شدت پسندی اور جنون سے تعبیر کیا جارہا تھا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پیروی میں جانیں قربان کرنے والوں کو گمراہ کہا جارہا تھا۔
کچھ لوگ تو جہاد کے منکر ہوچکے تھے اور لاکھوں ایسے تھے کہ جو جہادکی اہمیت اجاگر کرنے کی بجائے اس کو چھپا رہے تھے۔ ہاتھ کی صفائی ایسی تھی کہ لوگ قران مجید کا درس لیتے اور انھیں ۔
انفرو،
قاتلو،
جاھدوکے احکام نظر تک نہیں آتے۔
شاید کچھ لوگ میری بات کو مبالغہ سمجھیں پر حقائق سے باخبر رہنے والے جانتے ہیں کہ حقیقت واقعہ اس سے کہیں زیادہ ہے۔ جہاد کے متعلق جو اعتراضات مرزا قادیانی اور اس کی زریت کو تھے وہی اعتراضات اس دور میں ہم مسلمان اس قطعی محکم فریضہ پر کرتے ہیں۔
یہ اکتوبر دوہزار پانچ کی بات ہےجب علماء دیوبند کے ایک قابل فخرسپوت نے کوہاٹ میں دورہ
تفسیر آیات جہاد شروع کروایا۔ جس کا افادہ اتنا ہوا کہ جس پر اللہ کا جتنا شکر کیا جائے وہ کم ہے۔سچ ہےکہ علوم جہاد کا ایک ایسا سیل رواں تھا کہ جو اس سے پہلے نہ دیکھا نہ سناتھا۔
اور پھر زمانے نے دیکھا کہ مجاہدین کی دعائیں رنگ لے آئیں ۔شہدا کا مقدس خون مہکنے لگا رحمت خداوندی کا جھونکا آیا اورموسم ہی بدل ڈالا۔ مایوس دلوں میں امیدوں کی فصل لہلہانے لگی اور ایمانی جذبات سے سرشار اہل ایمان شمع جہاد پر، پروانوں کی طرح نثار ہونے لگے "
فتح الجواد" نے علمی ثقاہت اور شرافت و متانت کے ساتھ مخالفین جہاد کے دلائل کو یوں ریزہ ریزہ کر دیا ہے کہ وہ اب منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور اہل ایمان ہاتھوں میں فتح الجواد لیئے ان کا تعاقب کر رہے ہیں ۔ جہاد فی سبیل اللہ پر اعتراض کرنے والے دیکھ رہے ہیں انھیں پتا چل گیا ہے کہ
جہاد نقش برآب نہیں ، پتھر پر لکیر ہے جو کسی کے مٹانے سے نہیں مٹ سکتا۔
الحمد اللہ
فتح الجواد کی چاروں جلدیں ڈاؤن لوڈ کے لیئے پیش ہیں اس کا مطالعہ ضرور کریں کہ مرزا
قادیانی کے کفر کی وجوہات میں علماء نے ایک وجہ انکار جہاد بھی لکھا ہے ۔ انشاء اللہ اس تفسیر کے بعد ہمارے دل و دماغ میں کوئی شک و شبہ نہیں رہے گا اس فریضے کے بارے میں ۔
دعاؤں کا طلب گار
شہزاد اقبال
Bookmarks