ہوبارٹ، تسمانیہ پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان محمد یوسف کا کہنا ہے کہ میلبورن اور سڈنی ٹیسٹ کے بعد اب ہمارے پاس ٹیسٹ میچ جیتنے کا یہ آخری موقع ہے، جس کیلیے کھلاڑی سر دھڑ کی بازی لگا دیں گے، کوشش کریں گے اس بار غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ مجھے شائقین کے جذبات کا احساس ہے اس لئے میں اپنے ناراض شائقین سے یہی کہوں گا کہ وہ ہمیں چانس دیں، اس بار غلطیاں نہیں ہوں گی۔ جیت کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا لیکن یقین دلاتا ہوں کہ ٹیم لڑے گی اور یک طرفہ مقابلہ نہیں ہوگا۔ ملک میں مختلف جانب سے تنقید ضرور ہورہی ہے لیکن ہم اپنا اصل گیم کھیلیں گے اور کسی دباؤ کا شکار نہیں ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ تنقید نہ کریں کیونکہ تعمیری تنقید ہمیں بہت کچھ سمجھنے کا موقع دیتی ہے۔ لیکن تنقید برائے تنقید کی پالیسی ترک کرکے ہماری اچھی باتوں کو بھی ہائی لائٹ کیا جائے۔ اس سیریز کے بعض مثبت پہلو بھی ہیں۔ کون کہتا ہے کہ ہم نے فائٹ نہیں کی۔ سیریز سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ آسٹریلیا ہم پر حاوی رہے گا لیکن ہم نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان ٹیم کچھ بھی کرسکتی ہے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے چیئرمین جمشید دستی کے بیان پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ کرکٹرز کاکام کرکٹ کھیلنا ہے۔ ان معاملات کو بورڈ دیکھے گا لیکن میں واضح کردوں کہ کسی نے جان بوجھ کر خراب کارکردگی دکھائی ہے اور نہ اچھی کارکردگی دکھانا کسی کے بس میں ہے۔ پاکستان ٹیم دنیا کی کسی بھی ٹیم کو ہراسکتی ہے۔ وہ ہفتے کو بیل ریو اوول میں نمائندہ جنگ کو انٹر ویو دے رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ہر شکست کے بعد شدید ردعمل آتا ہے۔ کھلاڑیوں نے پوری کوشش کی ہے کہ مقابلہ کیا جائے لیکن بدقسمتی سے تین دن اچھا کھیلنے کے بعد چوتھے دن آسٹریلیا نے بازی پلٹ دی۔ ہم نے آسٹریلیا جیسی مشکل ٹیم کا سخت مقابلہ کیا اور اسے دباؤ میں لے آئے، بدقسمتی سے میچ فنش نہیں کرسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہوبارٹ ٹیسٹ نیا میچ ہے، کوشش کریں گے کہ ٹیم ایک بار پھر اچھا شو دکھائے ، سڈنی میں ہم نے فاش غلطیاں کیں اور اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ فیصل اقبال کی جگہ خرم منظور اور مصباح الحق کی جگہ شعیب ملک کو کھلانے کی تجویز ہے۔ محمد سمیع یا عمر گل میں سے کسی ایک کو ڈراپ کرکے محمد عامر کو جگہ دی جائے گی کیوں کہ عامر مکمل فٹ ہوچکے ہیں۔ ایک تجویز یہ بھی ہے کہ فیصل اقبال کو ان کی اصل پوزیشن پر چھٹے نمبر پر کھلایا جائے۔ محمد یوسف نے کہا کہ سڈنی کی شکست کے بعد ٹیم سخت مایوسی کا شکار تھی۔ اسے دوبارہ منظم کرنا اور اچھی کارکردگی کے لئے قائل کرنا آسان کام نہیں ہے۔ میں نے کھلاڑیوں سے یہی کہا ہے کہ وہ سب کچھ فراموش کردیں اور نئے میچ کو جیت کر اپنی قوم کو نئے سال کا تحفہ دیں۔
Bookmarks