غزوہ بدر کا واقعہ اور متفق علیہ حدیث
غزوہ بدر میں حضرت عمررضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ جو متفق علیہ حدیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ
جسمیں وہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے تعجب کا اظہار فرما رہے ہیں کہ بھلا مُردوں سے بھی گفتگو
کی جا سکتی ہے اور پھر اسکے بالکل برعکس یہ واقعہ جسمیں حضرت عمررضی اللہ عنہ خود ہی ایک
قبروالے سے سوالا ً جوابا ً ہیں اب کس پر ایمان لایا جائے ایک طرف متفق علیہ حدیث مبارکہ کے مطابق
حضرت عمررضی اللہ عنہ حیران و متعجب ہیں مگر دوسری طرف اس تھریڈمیں بالکل دوسرا متضاد رُخ ہے جو ایک غیر نبی اور اُمتی کا اختیار بتاتا ہے
اس کا بنیادی مقصد صرف یہ ہے کہ اس واقعہ کی آڑ میں چند لوگ اپنے پیروں فقیروں اورمرشدوں کے واقعات کو
اس فلسفانہ جواز پر پیش کرسکیں اور صوفیانہ کاروبار چمکایا جا سکے
حقیقت یہ ہے کہ ایسا انبیاء کرام علیہ سلام کے معجزہ سے تو ممکن ہے جو اللہ تعالٰی اپنے نبی کو کسی خاص موقع پرعطا کردے سبحان اللہ
مگر یہ اختیارکسی نبی کے اُمتی کا نہیں کہ وہ قبر والے کو اپنی بات سُنا سکے اور اُن کے احوال جان سکے
صحابہ کرام رضوان علیہم کی پوری زندگی میں ایسا ایک بھی واقعہ ثابت نہیں ہاں البتہ صوفیانہ اور خانقاہی شریعت ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے
کہ جس کا شریعت محمدی صل اللہ علیہ وسلم سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے
اللہ تعالٰی ہم سب کو ھدایت پر موت عطا فرمائے آمین
برائے مہربانی نیچے تفصیل کو بغور پڑھیں شکریہ
Bookmarks