پورٹ اوپرنس : ہیٹی میں تباہ کن زلزلے کے بعد بچ جانے افراد کا کہنا ہے کہ زلزلے کے جھٹکے آتے ہی لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکل آئے۔ لوگوں کو چیخ و پکار تھی اور گھر منہدم ہونا شروع ہوئے۔ ملبے تلے لوگوں کی لاشیں اور اس میں پھنسے افراد لوگ مدد کے لیے پکار رہے تھے اور پریشانی میں ہر سمت میں بھاگ رہے تھے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا۔ ہیٹی کے دارالحکومت پورٹ او پرنس میں بین الاقوامی این جی او سیو دی چلڈرن کے اہلکار ایئن روجرز کا کہنا ہے کہ لوگ اپنے عزیز و اقارب کو ملبے میں تلاش کر رہے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ’لوگوں کی آہ و بکا سنائی دے رہی تھی اور لوگ اپنے بچوں کو ملبے میں تلاش کر رہے تھے۔ لوگ ابھی بھی ملبے میں پھنسے لوگوں کو نکالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جب کوئی شخص زندہ نکالا جاتا ہے تو لوگ خوشی میں چیخیں مارتے ہیں۔ ہیٹی کے دارالحکومت کے علاوہ دوسرے علاقوں سے کم ہی خبریں آئی ہیں۔ امریکی ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے اہلکار ہینری باہن نے امریکی خبر رساں ایجنسی اے پی کو بتایا کہ وہ اپنے ہوٹل کی طرف جا رہے تھے جب زمین ہلنے لگ گئی۔ ’مجھے دور سے بہت اونچی آوازیں اور چیخ و پکار کی آوازیں آ رہی تھیں‘۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے چیخوں کی آوازیں سنیں اور پھر گانے اور دعا مانگنے کی آوازیں۔ گانے اور دعا مانگنے کی آوازیں اس اندوہناک واقعے کے بعد یہ خوبصورت آوازیں تھیں‘۔پندرہ سالہ ویلری مولیری کو ان کے والد نے گھر کے ملبے سے نکالا۔ ان کا کہنا تھا کہ لوگ سڑکوں پر بغل گیر ہو رہے تھے اور رو رہے تھے۔ ’میں نے منہدم ہوئے گھر دیکھے اور لوگ سڑکوں پر پھر رہے تھے۔ کچھ لوگ جو مجھ سے آگے چل رہے تھے وہ خون میں لت پت تھے۔ اس زلزلے کے کچھ دیر بعد ہیٹی سے میامی جانے والے مسافروں کا کہنا تھا کہ ہوائی اڈے کو بھی بہت نقصان پہنچا تھا۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’ہوائی اڈے کی عمارت کی دیواروں پر کریک پڑ گئے تھے۔ ہم سمجھے کے عمارت پر کوئی چیز ٹکرائی ہے لیکن بعد میں معلوم چلا کہ زلزلہ آیا ہے۔‘