اسلامی تاریخ ان بے شمار خواتین کے ذکر سے بھری پڑی ہے جنہوں نے اپنے عمل و کردار سے اپنا نام تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے درج کرادیا اور ثابت کیا کہ وہ محض گھر کی شہزادیاں نہیں، اگر وہ میدان جنگ میں اتر آئیں تو بڑے بڑے سورماوں کے قدم اکھاڑ سکتی ہے۔ وہ صرف گھریلو امور میں ماہر نہیں بلکہ بیرونی امور میں بھی اپنی بہترین صاحیتوں کو لوہا منوا سکتی ہیں۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے لیکر چاند بی بی تک اور یقیناۥۥ" ہمارے موجودہ عشرے تک ایسی لاتعداد خواتین ہیں جنہوں نے مشکل وقت میں اپنی قوم کی بہترین رہنمائی کی۔ ان مسلم خواتین نے زندگی سے وابسطہ مختلف شعبوں ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے کہ سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ ان ہی میں سے ایک نام "نورالنساء عنایت خان" کا بھی ہے جسکے استقلال کو توڑا نا جاسکا۔ جسکی جرائت کے آگے ہر خوف ہیچ ہوگیا۔
نورالنساء کا تعلق ہندوستان کے شاہی خاندان سے تھا اور اسکا سلسلہ نسب سلطان ٹیپو سے جا ملتا تھا۔ نور کا باپ صُوفی منش انسان تھا، عدم تشدد کا قائل اور عارفانہ موسیقی کا شیدائی جبکہ ماں ایک نو مسلم امریکی خاتون تھی۔ نورانساء 1914 میں پیرس کے نواحی علاقے بلومز بری میں پیدا ہوئی اور وہیں اسکا بچپن بھی گزرا۔ وہ اپنے خیالات میں گُم رہنے والی اور طلسمی کہانیاں پڑھنے والی ایک بچی تھی لیکن 1927 میں جب وہ صرف تیرہ برس کی تھی تو والد کا انتقال ہوگیا اور والدہ اس صدمے سے مستقلاً سکتے میں آگئیں۔ چار بچوں میں سب سے بڑی ہونے کے سبب سارے گھر کی ذمہ داری نور کے ناتواں کاندھوں پر آن پڑی تھی جسے اس تیرہ سالہ بچی نے بخوبی نبھایا۔
1940میں جب جرمنوں نے فرانس پر قبضہ کیا تو نورالنساء کا سماجی اور سیاسی شعور پختہ ہوچکا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ اب والد صاحب کی طرح محض عدم تشدد پہ یقین رکھنے اور صوفیانہ موسیقی میں گم رہنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ حالات براہِ راست عملی اقدام کا تقاضہ کر رہے ہیں۔ نور کو بچپن ہی سے ریڈیو پر بچّوں کو کہانیاں سنانے کا شوق تھا اور وہ ریڈیو اور وائرلیس کی تکنیک سے قدرے شناسا تھی چنانچہ جرمنوں کے خلاف تحریکِ مزاحمت میں اُس نے خفیہ پیغام رسانی کا میدان چُنا اور جرمنوں کے خلاف کام کرنے والی پہلی خاتون ریڈیو آپریٹر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
نور النساء کواپنے جدِ امجد سلطان ٹیپو سے والہانہ عقیدت تھی اور اسی روایت پہ چلتے ہوئے اس نے ہندوستان کو انگریزی عمل داری سے پاک کرنے کی قسم کھا رکھی تھی۔ اسیلئےجب خفیہ سروس میں بھرتی کے لئے انٹرویو ہوا تو اس نے انگریز افسر سے صاف صاف کہہ دیا کہ فی الحال ہمارے سامنے ایک مشترکہ دشمن نازی جرمنی کی شکل میں موجود ہے لیکن نازی ازم کا خاتمہ ہوتے ہی میں آزادیء ہند کے لئے انگریزوں کے خلاف بر سرِ پیکار ہوجاؤں گی۔
دوسری جنگِ عظیم کے دوران نازیوں کے زیرِ قبضہ فرانس میں کئی سطحوں پر تحریکِ مزاحمت جاری تھی۔ برطانیہ کی خفیہ سروس نے پیرس میں اپنے جاسوسوں کا جال پھیلا رکھا تھا جسکے ذریعے پل پل کی خبر اتحادی کمان کو پہنچتی تھی۔ 1943 میں نازیوں نے اِن جاسوسوں کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کر دی اور ایک ایسا وقت بھی آیا کہ نور کے تمام ساتھی گرفتار ہوگئے اور پیرس میں اتحادیوں کے لِیے پیغام رسانی کی تمام تر ذمہ داری اس نوجوان خاتون پر آن پڑی لیکن آخر کار جرمن خفیہ سروس گستاپو نے اسے بھی گرفتار کرلیا۔
نازی پنجے کی گرفت میں آنے کے بعد نورالنساء کا حوصلہ مزید مضبوط ہوگیا اور راز اُگلوانے کے سارے نازی ہتھکنڈے ناکام ہوگئے۔ بلآخر نازی درندوں نے اسے وحشیانہ انداز میں سسکا سسکا کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔
نور کی زبان کُھلوانے کے لئے اسے جو جو اذیتیں دی گئیں اسکے ذکر سے ہی دل تھرانے لگتا ہے اور زبان لڑکھڑا جاتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے ہوجاتا ہے کہ جنگ کے بعد نازیوں پر چلنے والے جنگی جرائم کے مقدّمے میں گستاپو کے متعلقہ افسر، ہانس جوزف کیفر سے نورعنایت خان کی موت کے بارے میں پوچھا گیا تواس سنگدل افسر کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
نرم و نازک خدوخال، گہری سیاہ آنکھوں اور دھیمے لہجے والی حسین و جمیل خاتون کی خطر پسند زندگی نے کئی قلم کاروں کو اپنی جانب راغب کیا اور اب تک اس کی زندگی پر عالمی شہرت کی دو کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں۔
بھی ہے۔ Spy Princess انہی میں سے ایک مصنفہ شربانی باسُو کی کتاب
Bookmarks