Results 1 to 2 of 2

Thread: چیف جسٹس افتخار کی جرأت سے ہی جمہوریت آئی، 

  1. #1
    amjadattari's Avatar
    amjadattari is offline Advance Member
    Last Online
    24th March 2020 @ 02:25 PM
    Join Date
    23 Jul 2009
    Location
    pakistan
    Posts
    6,522
    Threads
    1227
    Credits
    1,302
    Thanked
    1248

    Default چیف جسٹس افتخار کی جرأت سے ہی جمہوریت آئی، 

    اسلام آباد سپریم کورٹ بار کے سینئر ترین جج مسٹر جسٹس جاوید اقبال نے کہا ہے کہ موجودہ جمہوریت چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی مرہون منت ہے۔ چھترول کرنیوالوں کیخلاف ایکشن لیا تو ارباب اختیار چیخ اٹھیں گے کہ سپریم کورٹ انتظامی معاملات میں مداخلت کررہی ہے۔3نومبر کو چیف جسٹس بن سکتا تھا لیکن قومی مفاد میں پیشکش ٹھکرا دی‘ از خود نوٹس کا اختیار کسی کے اختیارات میں مداخلت نہیں‘احتساب کا نظام موثر نہیں اور بااثر افراد کوکوئی نہیں پوچھتا ‘کرپشن بڑھ کر کلچر کا حصہ بنتی جا رہی ہے،نظام تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا، ذاتی اور قومی مفاد کے مابین لکیر کھینچنا ہوگی، ‘ہمارا مقصد جمہوریت اور اداروں کو مستحکم کرنا ہے ‘ بدعنوانی کے خاتمے کا تہیہ کر رکھا ہے۔جمعرات کو یہاں نیشنل اسکول فار پبلک پالیسی میں نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ گوادر میں زمینیں ، جرنیلوں ،بیوروکریٹس اور سیاستدانوں میں بانٹ دی گئیں، نوٹس لینے پرججوں کیلئے 50 پلاٹ دینے کی پیشکش کی گئی، انہوں نے نظام میں موجود خامیوں پربے دریغ تنقید کرتے ہوئے کہا کہ غریب کا گھر نیلام ہو جاتا ہے لیکن کروڑوں روپے کے قرضے معاف کر دئیے جاتے ہیں۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ پارلیمنٹ قوانین کو آسان بنائے تو مقدمات کی طوالت ختم ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کرپشن کے کئی معاملات کا نوٹس لیکر غریبوں کے اربوں روپے واپس کر دئیے۔ انہوں نے کہا کہ بنک آف پنجاب اور حارث اسٹیل مل کیسز عدالتی پیش قدمی کی مثال ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا مقصد جمہوریت اور اداروں کو مستحکم کرنا ہے۔ ہم نے بدعنوانی ختم کرنے کا تہیہ کر رکھاہے ۔جسٹس جاوید اقبال نے سرکاری افسران کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس اختیار ہے کہ وہ غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دیں۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں نیشنل اسکول آف پبلک پالیسی کے زیر تربیت افسروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بیسٹ آف بیسٹ پالیسی کے تحت سرکاری افسران کی ترقی صرف من پسند افراد کو نوازنے کا ایک طریقہ ہے یہ پالیسی سروسز رولز میں نہیں ہے اور گریڈ 22 میں افسران کی ترقیاں اس کی ایک مثال ہیں جس کیس پر سپریم کورٹ نے حال ہی میں سماعت مکمل کر کے فیصلہ محفوظ کیا ہے، انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری غیر جانبداری اور قانون کی بالادستی کی علامت بن چکے ہیں، قانون کی پاسداری کے لئے ان کی کوششوں کو عالمی طور پر سراہا گیا ہے، چیف جسٹس پاکستان تاریخ کا رخ تبدیل کر دینے والی شخصیت ہیں آج ملک میں جمہوریت ان کی کوششوں اور جدوجہد مرہون منت ہے جس میں میڈیا، وکلاء، سول سوسائٹی اور زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی جمہوریت کی خاطر اپنا کردار ادا کیا۔ سپریم کورٹ میرٹ اور آئین کے مطابق فیصلے کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں شخصیات کو نہیں بلکہ اداروں کو مضبوط کرنا ہو گا، شخصیات کو مضبوط بنا کر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کئے جا سکتے، انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر تشویش ہے کہ اکثر ادارے توقعات کے مطابق اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہو چکے ہیں، اگر کوئی بات کرتا ہے کہ ان معاملات میں سپریم کورٹ کو آگے آنا چاہئے یا نوٹس لینا چاہئے تو اس ادارے پر لوگوں کے اعتماد کی علامت ہے سپریم کورٹ لوگوں کے مفاد میں اپنے اختیارات استعمال کرتی ہے، جہاں اختیارات کا غلط استعمال ہوا ہو سپریم کورٹ ایکشن لے سکتی ہے، یہ مداخلت نہیں ہے اور نہ ہی اسے مداخلت قرار دیا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ امراء اور بااثر افراد کو اربوں روپے کے قرضے دیئے جاتے ہیں یہ ان کی ذاتی رقم نہیں کہ اسے معاف کر دیا جائے، اگر غریب آدمی ہاؤس بلڈنگ سے گھر بنانے کے لئے 50 ہزار روپے کا بھی قرضہ لے لیتا ہے تو اس کا گھر تک نیلام کر دیا جاتا ہے کیا ان معاملات پر سپریم کورٹ خاموش رہے، عدالت نے حارث اسٹیل ملز کیس میں اس بات کا نوٹس لیا، انہوں نے کہا کہ ہمارے قوانین پیچیدہ ہیں، سپریم کورٹ قانون ساز ادارہ نہیں، پارلیمنٹ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، انہوں نے کہا کہ اگر قانون کے مطابق کرپشن کے خلاف ایکشن لیا جاتا تو ملک سے آج کرپشن ختم ہو چکی ہوتی، اس وقت احتساب کا عمل بھی اتنا موثر نہیں جس قدر اسے موثر ہونا چاہئے تھا۔ پٹواری کو ذمہ دار سمجھ لیا جاتا ہے اصل ذمہ داروں کو سامنے نہیں لایا جاتا، کرپشن کے خاتمے کی کوششیں کرنی چاہئے اب بھی دیر نہیں ہوئی، انہوں نے کہا کہ پولیس کے ہاتھوں ملزمان کی کھلے عام چھترول کا واقعہ بڑا افسوسناک ہے، جب ٹی وی پر چھترول دیکھی تو پہلی مرتبہ یہ شوق ختم ہوا کہ پولیس میں جانا چاہئے تھا۔ چھترول کا طریقہ بہت پرانا ہو گیا ہے اگر کسی نے کچھ نہیں بتانا تو چھترول سے بھی کچھ نہیں بتائے گا، تفتیش کے اور بھی بہت سارے سائنٹفک اور دیگر طریقے ہیں، اگر اب سپریم کورٹ ایکشن لے تو کہیں گے کہ سپریم کورٹ تجاوز کر رہی ہے تقریب کے آخر میں شرکاء نے فاضل جج کو شیلڈ پیش کی جبکہ فاضل جج نے بھی شرکاء کو شیلڈ پیش کی، قبل ازیں ایڈیشنل رجسٹرار قاضی ساجد محمود نے شرکاء کو جوڈیشل سسٹم پر بریفنگ دی۔

  2. #2
    Foreign-Observe's Avatar
    Foreign-Observe is offline Senior Member+
    Last Online
    23rd May 2016 @ 03:50 PM
    Join Date
    04 Apr 2010
    Posts
    583
    Threads
    202
    Credits
    0
    Thanked
    194

    Default

    thanks for sharing

Similar Threads

  1. Replies: 12
    Last Post: 13th September 2013, 12:55 AM
  2. Replies: 4
    Last Post: 4th February 2011, 03:17 PM
  3. Replies: 16
    Last Post: 12th March 2010, 05:13 AM
  4. Replies: 2
    Last Post: 24th January 2010, 07:15 PM
  5. Replies: 9
    Last Post: 4th August 2009, 09:16 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •