السلامُ علیکُم ورحمتُہ اللہ وبرکاتُہ
ایک اور موقع پر الہی بخش نے کہا ، ابا تم عشق کی بات بُہت کرتے ہو ، کہتے ہو زندگی کا مقصد عشق ہونا چاہیے ، عشق اللہ اور اُس کے رسُول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے
یہ تو بتائو یہ عشق کیا چیز ہے ، مشکل ہے کہ آسان مجھے محبت بڑی آسان لگتی ہے ۔ کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی ، ہو جاتی ہے تو جاتی ہے نہیں ہوتی تو نہیں ہوتی ، مگر اتنا بڑا مسلہ تو نہیں لگتا جتنا تم بتاتے ہو
باپ کے چہرے پر نرمی ہی نرمی بکھر گئی آنکھوں میں جیسے گہری سوچ اُتر آئی.
میں تو جاہل آدمی ہُوں بیٹے ۔آپ ہی آپ یہ باتیں سمجھنے کی کوشش کرتا رہتا ہُوں ، اس کو پڑھنے کے لیے کتابیں پڑھنے کی بھی ضرورت نہیں ہو تی ۔ یہ عشق تو آدمی کے اندر ہوتا ہے نا بس اس کے لیے خود کو سمجھنے اور تبدیل کرتے رہنا ہوتا ہے
وہ کہتے کہتے رُکا اور بظاہر سامنے والی دیوار پر کچھ دیکھنے لگا ، لیکن لگتا تھا کہ وہ بُہت دُور دیکھ رہا ہے
عشق تو بیٹے آسان ہے بُہت ہی آسان یہ تو ہو جاتا ہے پر عشق کرتے رہنا کئے جانا بُہت مشکل ہے عشق کے تقاضے پُورے کرنا بالکل آسان نہیں ، اس کے لیے تو اپنا آپ مارنا پرتا ہے
الہی بخش نے پُوچھا کہ ابا عشق کیسے ہو سکتا ہے اُس سے جس کو دیکھا نہ ہو ؟
اپنے وجود پر غور کرنا شروع کر ، پیدا ہُوا تو کیڑے جیسا تھا ، اپنے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا ، نہ اپنی حفاظت نہ زندگی کا اہتمام ، رب نے تیری حفاطت کی ، تُجھے پالا ، دو ہاتھ دیے ، دوٹانگیں دی ، کام کرتی ہُوئی دو آنکھیں*دیں ، بینائی دی ، عقل دی ، تجھے ایک مکمل انسان بنایا ، کوئی کمی کوئی محرومی تیرے لیے نہیں چھوڑی ، سب سے بڑھ کر تُجھے ایک مُسلمان کے گھر میں*پیدا کیا ، تاکہ تجھے حق کی تلاش میں نہ بھٹکنا پڑے ، یہ سب احسان تجھ پر کیے ، اس نے جو بے نیاز ہے ، جس کو کسی سے غرض نہیں ، اسے کسی سے کچھ نہیں چاہیے ، اور اتنے احسانوں کے بعد اس نے بھلائی کا راستہ دکھا کر تُجھ پر احسان کیا ، اب اس کہ جواب میں تُو کیا کرے گا
الہی بخش کچھ دیر سوچتا رہا ، سوال مشکل تھا ، سوچتے سوچتے ذہن منتشر ہو ا جارہا تھا
وہ اپنی سوچوں کو یکجا کرنے کی کوشش کر رہا تھا ، میں اللہ کے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا
نماز پڑھوں گا ، عبادت کروں گا ، اُس کے بتائے ہُوئے سیدھے راستے پر چلوں گا ،اُس کا شکر ادا کروں گا
یہ بھی تو اللہ کا احسان ہو گا تجھ پر ، باپ نے کہا اس لیے کہ یہ سب کچھ کرنا تو تیرے لیے فائدہ مند ہے ، پھر بتا تُو نے کیا کیا کچھ بھی تو نہیں .یاد رکھ توفیق بھی اللہ ہی دیتا ہے ،
تو میں اور کیا کر سکتا ہُوں ، الہی بخش نے پوچھا ،
محبت کے سوا کیا کر سکتا ہے ، اللہ کی غلامی تو فرض ہے ، اس کا حکم بجا لانے میں ہی اپنی فلاح ہے ، ہاں محبت اسی کے لیے ہے سمجھا کچھ ؟
سمجھ تو گیا ابا ، پر محبت تو ہو جاتی ہے کی نہیں جاتی .
ٹھیک کہتا ہے لیکن محبت بے سبب نہیں*ہوتی ، کبھی یہ ہمدردی اور کبھی اس کا سبب خواہش ہوتی ہے ، کبھی آدمی محبت کی طلب میں محبت کرتا ہے ، یہ سوچ کر کہ اسے جواب میں محبت ملے گی اور کبھی آدمی کسی کے احسانات
کی وجہ سے محبت کرا ہے ، تیرے پاس تو محبت کا سبب موجود ہے محبت کو سامان تو کر..
کیسے کروں ابا ؟
ہر وقت خدا کے احسانات کو یاد کیا کر ، غور کیا کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے. یوں دل میں شکر گُزاری پیدا ہوتی گی
،پھر تُو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے ، وہ بے بسی تیرے دل میں محبتپید کرے گی ، تُو سوچے گا کہ مالک نے بنا کسی غرض کے تجھے نوازا ، تجھ سے محبت کی، تُو غور کر کہ اتنی بڑی دُنیا میں کروڑوں انسانوں کو بیچ تُو کتنا حقیر ہے ، سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ، کوئی تجھ پر بُری نظر بھی نہیں ڈالے گا ، کسی کو پروا نہیں ہوگی ، کہ کوئی الہی بخش بھی ہے ، لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں
کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے ، تیری ضروریات پوری کرتا ہے تیری بہتری سوچتا ہے ، تجھے اہمیت دیتا ہے ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہو گی ، اس محبت کے ساتھ بھی یہ سب کچھ سوچتا رہے
گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہو گی ، اور پھر تجھے خدا سے عشق ہو جائے گا
لیکن اب اللہ سے محبت کا طریقہ کیا ہے ؟ الہی بخش نے پوچھا ، کیا اس سے یہ کہتا رہوں کہ مجھے تم سے محبت ہے.
یہ تو انسانوں*سے کہنا پڑتا ہے ، باپ نے جواب دیا ، کیونکہ وہ کچھ نہیں*جانتے لیکن اللہ سب جانتا ہے اُس سے دل کا حال نہیں*چھپا ہُوا ، صرف محبت کرتے رہو ، وہ جان لے گا. جہاں تک طریقے کا تعلق ہے تو ہم جیسے حقیر بندوں کے لیے اس نے فرمایا ہے کہ مجھ سے محبت کرنی ہے تو میرے بندوں سے محبت کرو. بغیر کسی غرض کے ہر انسان سے صرف اس لئے محبت کرو کہ وہ بھی اللہ کابندہ ہے . باپ کہتے کہتے رکا ، اور مُسکرایا '' اب تُو سمجھ رہا ہے نا . اللہ کو اپنے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے خاص محبت تھی . بے پناہ محبت . ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں تو ہم پر عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم بھی لازم ہے. عشق نہ کہیں رکتا ہے نہ کہیں ختم ہوتا ہے .
اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کیسے کریں گے؟
ہم نے اللہ سے محبت کی تو ہمیں اس سے عشق تو کرنا پڑے گا ، جو اللہ کو سب سے زیادہ پیارا ہے ... اس سے عشق کرنے کے لیے ہمیں اس کا احترام کرنا ہو گا ، اس پر درود بھیجتے رہو ، اس کے اسم مبارک پر احتراما کھڑے ہو جائو . اس کی سنت طیبہ کی پیروی کرو ، اور آخری بات یہ اصول کہ جو بھی اسے پیارا ہو ، اسے اپنی جان سے پیارا سمجھو ، اسی بنیاد پر تو ہم اللہ کے عشق سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق تک پہنچتے ہیں
جی یہ باتیں تو عشق کی تھیں ، اللہ سے عشق اللہ کے رسول سے عشق ، شاید بُہت سے لوگ یہ جانتے ہوں کہ میں نے *یہ لائنز کہاں*سے شیئر کی ، عشق کا عین ، ناول سے لیکن ان کو شئیر کرنے کامطلب بھی آپ کو سمجھنا چاہیے
کچھ سمجھ آئے تو ضرور بتائیے گا
اُمید ہے کہ اس تھریڈ کے ذریعے جو میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہُوں آپ سمجھ رہے ہونگے
Bookmarks