حقیقت ہے یقین کر لو ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں
محبت مر چکی اب تو ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں

بدلتی رت کی وجہ سے، طبیعت کچھ بوجھل سی ہے
یوں میرا حال مت پوچھو، میں اسکو بھول کر خوش ہوں

میرے لہجے پہ مت چونکو، میری آنکھوں میں مت جھانکو
یوں حیرت سے نہ دیکھو، میں اسکو بھول کر خوش ہوں

تمہیں کیا وہم ہے کیوں رات بھر ملنے نہیں آتیں
اے میری نیند کی پریوں، میں اسکو بھول کر خوش ہوں

بھلا کیوں روز بانہیں وا کیے مجھ سے ملنے آتیں ہیں
تم اسکی یاد سے کہہ ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں

اداسی سارے گھر میں پھیلتی جاتی ہے غم بن کر
در دیوار پہ لکھ دو ، میں اسکو بھول کر خوش ہوں

ثناء