اُسے تو کھو ہی چکے پھر خیال کیا اُس کا
یہ فکر کیسی کہ اب ہوگا حال کیا اُس کا
وہ ایک شخص جسے خود ہی چھوڑ بیٹھے تھے
گھُلائے دیتا ہے دل کو ملال کیا اُس کا
تمھاری آنکھوں میں چھلکیں ندامتیں کیسے ؟
جواب بننے لگا تھا سوال کیا اُس کا
تمھارے اپنے ارادے میں کوئی جھول نہ تھا
کہو کہ ملنا تھا ایسا محال کیا اُس کا
وہ نفرتوں کے بھنورمیں بھی مسکرا کے ملا
اب اس سے بڑھ کے بھلا ہو کمال کیا اُس کا
اب اس طرح بھی نہ یادوں کی کرچیا ں چُنیے
نہ تھا فراق سے بہتر وصال کیا اُس کا
یہ سوچ کر نہ ملے پھر اُسے کبھی خالدؔ
کہ جا نے ہو گا ندامت سے حال کیا اُس کا
~*~*~*~*~*~*~*~
Bookmarks