* آدمی اللہ کے دو قسم کے حقوق کا اسیر ہے *
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آدمی اللہ کے دو قسم کے حقوق کا اسیر ہے
اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
اللہ کے انسان پر دو قسم کے حقوق ہیں اور ان کی قید سے وہ عمر بھر آزاد نہیں ہوتا۔ ایک اس کا امر اور نہی ہے اور جو کہ اللہ کا خالص حق ہے جسے ادا کر دینا آدمی کا فرض ہے اور دوسرا اس کی نعمتوں کا شکر کرنا جو کہ وہ انسان پر کرتا ہی رہتا ہے۔
اللہ انسان سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس کی نعمتوں کا پاس کرتا اور ان پر شکر گزار ہوتا رہے اور اسے جو جو حکم دیا جائے وہ اسے پورا کرے اور یہ دونوں کام کرنے میں اپنے قصور اور کوتاہی کا برابر اعتراف کرتا رہے.... اور اس بات کا ادراک کرتا رہے کہ وہ بخشش اور مغفرت کیلئے اللہ کا ہر دم ہی محتاج ہے اور یہ کہ اگر اس کو اللہ نے اپنی رحمت سے نہ سنبھالا تو اس کے تباہ ہو جانے میں کوئی بھی شک نہیں۔ انسان میں دین کی سمجھ اور تفقہ جس قدر بڑھتا ہے اتنا ہی وہ اپنے اس فرض کا ادراک اور احساس زیادہ کرنے لگتا ہے۔ جتنا اس کا دین میں درجہ بلند ہوتا ہے اتنا ہی وہ اس ادائے فرض میں اپنے قصور کا بڑھ کر اعتراف کرتا ہے۔ دین بس یہی نہیں کہ آدمی ظاہری طور پر گناہوں کو چھوڑ دے۔ دین کا مطلب تو دراصل یہ دیکھنا ہے کہ وہ کونسی بات ہے اور کونسی ادا ہے جو اللہ کو خوش کر جائے۔ اکثر دیندار ان باتوں کو بس اتنی ہی توجہ دیتے ہیں جتنی کہ عوام الناس کے ہاں ضروری جانی جاتی ہے۔
رہا یہ کہ آدمی جہاد کا فرض ادا کرے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دے، اللہ اور رسول کی خاطر اللہ کے بندوں سے ہمدردی کرے اور ان کی بھلائی اور نصیحت کیلئے دوڑ دھوپ کرے اور یہ کہ اللہ کی اور اس کے رسول کی اوراس کے دین کی اور اس کی کتاب کی نصرت کرے.... تو یہ فرائض ان کے وہم وگمان تک میں نہیں آتے.... کجا یہ کہ وہ اس کے لئے عزم مصم کرتے ہوں اور یہ تو خیر اس سے بھی بڑی بات ہے کہ وہ ان فرائض کی بالفعل ادائیگی میں مصروف ہوں۔
جو شخص دین میں جتنا پیچھے ہو گا اور جتنی اس کی اللہ کے ہاں وقعت کم ہو گی اتنا ہی وہ ان فرائض کو ترک کرے گا چاہے بظاہر وہ دنیا کا بڑا زاہد کیوں نہ ہو۔ چنانچہ آپ کم ہی یہ دیکھیں گے کہ کسی دیندار کا اللہ کی خاطر غصے میں آکر چہرہ لال ہوا ہو یا وہ اللہ کی نافرمانی پر سیخ پا ہوا ہو.... یا یہ کہ اللہ کے دین کو نصرت دینے میں اس نے اپنی عزت پر کوئی حرف آنا گوارا کیا ہو۔ ایسے دنیدار سے تو وہ گنہگار اچھے جو اللہ کیلئے خوش ہونا اور اللہ کیلئے غصہ کرنا جانتے ہوں۔ ابو عمر ودیگر اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ اللہ نے اپنے ایک فرشتے کو حکم دیا کہ وہ ایک بستی کو زمین میں دھنسا آئے۔ فرشتے نے عرض کی۔ اے میرے رب وہاں تو فلاں زاہد اور عابد شخص بستا ہے۔ اللہ نے فرشتے کو حکم دیا: ”اسی سے شروع کرو۔ برائی کو دیکھ کر کبھی ایک دن بھی اس کی حالت غیر نہیں ہوئی“۔
جہاں تک نعمت کے اعتراف کا تعلق ہے تو اعتراف نعمت کا تقاضا ہے کہ آدمی کی نظر سے اپنی ہر اچھائی اور ہر نیکی روپوش ہو جائے، چاہے اس نے دنیا جہان کے نیک اعمال کیوں نہ کر لئے ہوں.... کیونکہ اللہ کی نعمتیں اس پر ہیں ہی اتنی کہ اس کے اعمال کا اللہ کی ان نعمتوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں۔ اللہ کی تو چھوٹی سے چھوٹی نعمت بھی اتنی بڑی ہے کہ آدمی کے بڑے سے بڑے عمل پر ایک وہی بھاری پڑ جاتی ہے۔ چنانچہ بندے کا صحیح مقام صرف مقام بندگی کا احساس ہے۔ بندے کے لائق بس یہی بات ہے کہ اس کی نگاہ ہر دم اللہ کے حق پر ٹکی رہے اور اللہ کا حق اس کی نظر سے کسی لمحے روپوش نہ ہو۔
چنانچہ اعتراف نعمت اور احساس فرض .... دو ایسی چیزیں ہیں جو بندے کی نظر سے اس کی ہر اچھائی اور ہر نیکی کو روپوش کرا دیتی ہیں۔ آدمی ہر وقت اپنے قصور کا معترف رہتا ہے۔ سب کچھ کرکے بھی معافی کا خواستگار ہوتا ہے اور ہر معاملے میں اپنے نفس کو ملزم ٹھہراتا ہے۔
اعتراف نعمت اور احساس فرض .... آدمی اللہ کی رحمت کے کتنا قریب ہوتا ہے جب وہ ان دو خوبصورت احساسات کے بیچ میں بستاہے۔ کچھ کر دینا تو بڑی بات ہے اللہ کے حق میں تو احساس کا حق ادا کر دینا بھی آسان نہیں۔
اللہ یا بس تیرا سہارا!
امام ابن القیم
وسلام۔۔۔
WARNING: Do not share any forum link in signatures
Bookmarks