قادیانیت کا مکروہ چہرہ !

کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب






از: مولانا سعید احمد جلال پوری

مدیر ماہنامہ بینات کراچی، پاکستان









سوال: (4) ”حضرت محمد نے جہاد کا حکم کیوں دیا؟ جہاد کو اسلام کاپانچواں ضروری رکن کیوں قرار دیا؟“

جواب: دیکھا جائے تو اس اعتراض کے پیچھے بھی مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی امت کی انگریز حکومت کی نمک خواری کا جذبہ کارفرما ہے، ورنہ مرزائیوں اور تمام دنیا کو معلوم ہے کہ جہاد کا حکم حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے،اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مرزائیوں، قادیانیوں اور ان کے باوا غلام احمد قادیانی کا اسلام اور قرآن پر نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں؛ بلکہ ان کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

(۲) اگر قادیانی، قرآن کریم کو مانتے ہوتے اوراسے اللہ کا کلام سمجھتے ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اگر آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے از خود جہاد کا حکم دینا ہوتا تو مکی دور میں اس کا حکم دیتے، جبکہ مسلمان کفار و مشرکین کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے، اگر جہاد کا معاملہ آپ صلى الله عليه وسلم کے قبضہ میں ہوتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اپنے جاں نثاروں کو صبر کی تلقین کیوں فرماتے؟ حبشہ کی ہجرت کی اجازت کیوں دی جاتی؟ اپنا آبائی گھر چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کیوں فرماتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کفار اور مشرکین مکہ کے مظالم کیوں برداشت کرتے؟

(۳) ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو قرآن کریم میں جس طرح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے اور اس طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا ہے، اس سے صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے قلت تعداد کے باعث ثقیل تھا، اور ان کے لئے جہاد کا حکم بجالانا کسی قدر مشکل تھا، چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں مسلمانوں کو جہاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

الف: ”اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا، وان اللّٰہ علی نصرہم لقدیر“. (الحج:۳۹)

ترجمہ: ”حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔“

ب: ”یا ایہا النبی حرض المومنین علی القتال، ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مأتین، وان یکن منکم مائة یغلبوا الفا من الذین کفروا بانہم قوم لا یفقہون“. (الانفال: 6۵)

ترجمہ: ”اے نبی شوق دلا مسلمانوں کو لڑائی کا، اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔“

ج: ”کتب علیکم القتال وہو کرہ لکم، وعسٰی ان تکرہوا شیئًا وہو خیرلکم، وعسٰی ان تحبوا شیئًا وہو شرلکم، واللّٰہ یعلم وانتم لاتعلمون“.(البقرہ:۲۱6)

ترجمہ: ”فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو، اور شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔“

ان آیات اوراسی طرح کی دوسری متعدد آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی جانب سے نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، چونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی، اور وہ ایک عرصہ سے کفار کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے، اور مسلمان بظاہر کفار کی تعداد اور قوت و حشمت سے کسی قدر خائف بھی تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو حکم دیا کہ ان کو جہاد پر آمادہ کیا جائے اور باور کرایا جائے کہ وہ کفار کی عددی کثرت سے خائف نہ ہوں بلکہ مسلمانوں کا ایک فرد کفار کے دس پر بھاری ہوگا۔

(4) اسی طرح یہ بھی واضح کیاگیا کہ مسلمانوں کو یہ احساس بھی نہیں رہنا چاہئے کہ اب تک تو ہمیں کفار کے مظالم پر صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور ان کی جانب سے دی جانے والی تکالیف و اذیتوں پر صبر و برداشت کا حکم تھا تو اب جوابی، بلکہ اقدامی کارروائی کا حکم کیونکر دیا جارہا ہے؟ تو فرمایاگیاکہ یہ صبر و برداشت ایک وقت تک تھی، اب اس کا حکم ختم ہوگیاہے اور جہاد و قتال کا حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ اب تمہارے صبر کا امتحان ہوچکا اور کفار کے مظالم کی انتہا ہوچکی۔

نیز یہ کہ چونکہ اس وقت کفار، مشرکین اور ان کے مظالم، اشاعتِ اسلام میں رکاوٹ تھے اور وہ فتنہ پردازی میں مصروف تھے، اس لئے حکم ہوا کہ: ”وقاتلوہم حتی لاتکون فتنة“ یعنی کفار سے یہاں تک قتال کرو کہ کفر کا فتنہ نابود ہوجائے۔

اسی طرح اس مضمون کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایاگیا:

الف: ”یایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم ومأوٰہم جہنم وبئس المصیر.“ (التوبہ:۷۳)

ترجمہ: ”اے نبی! لڑائی کرکافروں سے اور منافقوں سے اور تندخوئی کر ان پر اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بڑا ٹھکانا ہے۔“

ب: ”قل ان کان آبائکم وابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ناقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللّٰہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللّٰہ بامرہ، واللّٰہ لایہدی القوم الفٰسقین“ (التوبہ: ۲4)

ترجمہ: ”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال، جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری، جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو، تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں، تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور رستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“

ان آیات سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کاحکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے، بلکہ اس میں شدت کی تاکید ہے، اور جو لوگ اپنی محبوبات و مرغوبات کو چھوڑ کر جہاد کا حکم بجا نہیں لائیں گے، وہ اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ بتلایا جائے کہ اگر اللہ کا رسول، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا مسلمان اس حکم الٰہی کو بجالائیں اور نصوص قطعیہ کی وجہ سے اُسے فرض جانیں تواس میں اللہ کے نبی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟ نیز یہ بھی بتلایا جائے کہ جو لوگ طبعی خواہش اور نفس کے تقاضا کے خلاف سب مرغوبات و محبوبات کو چھوڑ کر اللہ کا حکم بجالائیں، وہ قابلِ طعن ہیں یا وہ، جو دنیاوی مفادات اور انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال دیں؟

بلاشبہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے زمرے اور مصداق میں آتاہے۔

(۵) اس سے ہٹ کر مشاہدات، تجربات، عقل اور دیانت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو اللہ کے باغیوں اور اللہ کی مخلوق پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کے خلاف جہاد یا اعلان جنگ عین قرینِ قیاس ہے۔

اس لئے کہ دنیا کے دو پیسے کے بادشاہوں میں سے کسی کے خلاف اس کی رعایا کا کوئی فرد اعلان بغاوت کردے تو پہلی فرصت میں اس کا قلع قمع کیاجاتا ہے اور ایسے باغی کے خلاف پورے ملک کی فوج اور تمام حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے تاآنکہ اس کو ٹھکانے نہ لگادیا جائے۔



اور مہذب دنیا میں ایسے باغیوں سے کسی قسم کی رعایت برتنے کا کوئی روادار نہیں ہوتا، اور نہ ہی ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت ہوتی ہے، بلکہ اگر ایسے باغی گرفتار ہوجائیں اور سوبار توبہ بھی کرلیں تو بھی ان کی جان بخشی نہیں ہوتی، اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی قوم، برادری یا افراد، خالق ومالک کائنات اور رب العالمین سے بغاوت کریں، اور خلق خدا پر،سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ بند کردیں، تو کیا اس رب العالمین اورمالک ارض و سما کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی فوج کے ذریعہ ان شوریدہ سروں کا علاج کرے اور ان کو ٹھکانے لگائے؟ دیکھا جائے تو جہاد کا یہی مقصد ہے، اور یہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔

(6) پھر جہاد صرف شریعت محمدی ہی میں شروع نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی مشروع تھا، جیسا کہ بائبل میں ہے:

”پھر ہم سے مڑکر بسن کا راستہ لیااور بسن کا بادشاہ عوج اور عی میں اپنے سب آدمیوں کو لے کر ہمارے مقابلہ میں جنگ کرنے کو آیا، اور خداوند نے مجھ سے کہا: اس سے مت ڈرو کیونکہ میں نے اس کو اور اس کے سب آدمیوں اور ملک کو تیرے قبضہ میں کردیا ہے، جیسا تونے اور یوں کے بادشاہ سیحون سے جو حسبون میں رہتا تھا کیا، ویساہی تو اس سے کرے گا؟ چنانچہ خداوند ہمارے خدانے لبسن کے بادشاہ عوج کو بھی اس کے سب آدمیوں سمیت ہمارے قابو میں کردیا اور ہم نے ان کو یہاں تک مارا کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہا، اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہر لے لئے اور ایک شہر بھی ایسا نہ رہا جو ہم نے ان سے نہ لے لیا ہو... اور جیسا ہم نے سیحون کے بادشاہ سیحون کے ہاں کیا ویسا ہی ان سب آباد شہروں کو مع عورتوں اور بچوں کے بالکل نابود کرڈالا۔“ (استثنا، باب: ۳، آیت: ۱،۲،۳، اور 6)

اسی طرح باب:۲، آیت: ۱۰ تا ۱4 میں ہے:

”جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدپہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا، اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں، اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کریں بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو، اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپائیوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو، کھانا۔“

سوال (۵) ”مالِ غنیمت کے طور پر دشمن کی عورتیں مسلمانوں کے لئے کیوں حلال قرار دیں؟ کیا عورتیں انسان نہیں بھیڑبکریاں ہیں، جنہیں مالِ غنیمت کے طورپر بانٹا جائے اور استعمال کیا جائے؟“

جواب: دشمن سے لڑائی، قتال اور جہاد کی صورت میں ان کے جو افراد گرفتار ہوجائیں وہ قیدی کہلاتے ہیں، پھر اگر مسلمان فوج کے کچھ افراد مخالفین کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں تو کفار قیدیوں سے تبادلہ کرکے مسلمانوں کو چھڑایا جائے گا، اس کے علاوہ جو بچ رہیں گے، ان کو غلام اور لونڈیاں قرار دے کر انہیں مسلمان فوجیوں میں بطور مال غنیمت تقسیم کردیا جائے گا، اس کا نام ہے: ”غلامی کا مسئلہ“۔

غلامی کے اس مسئلہ پر عام طور پر اسلام دشمن یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور مسلمانوں کی جانب سے یہ انسانوں پر ظلم ہے۔

اس عنوان سے عیسائی دنیا اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار بھی اعتراض کیاکرتے ہیں، قادیانیوں کا اس مسئلہ پر اعتراض کرنا دراصل اپنے عیسائی آقاؤں کی ہم نوائی اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے مترادف ہے؛ بلکہ ان کے منہ کی بات چھین کر اپنے منہ سے نکالنے کی مانند ہے، جبکہ قادیانیوں اور ان کے آقاؤں کو معلوم ہونا چاہئے کہ غلامی کا مسئلہ اسلام نے جاری نہیں فرمایا؛ بلکہ یہ قبل از اسلام عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی جاری تھا، چنانچہ غلاموں اور لونڈیوں کا تذکرہ خود بائبل میں بایں الفاظ موجود ہے:

الف: ”اور یعقوب نے لابن سے کہاکہ میری مدت پوری ہوگئی، سو میری بیوی مجھے دے تاکہ میں اس کے پاس جاؤں تب لابن نے اس جگہ کے سب لوگوں کو بلاکر جمع کیا اور ان کی ضیافت کی، ... اور لابن نے اپنی لونڈی زلفہ، اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔“ (پیدائش، باب: ۲۹، آیت: ۲۱ تا ۲4)

ب: باب: ۳۰، آیت: ۹ میں ہے:

”اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بھی یعقوب سے ایک بیٹا ہوا۔“

ج: استثناء باب: ۲۳، آیت: ۱۵، ۱6 میں ہے:



= =
=