Page 1 of 2 12 LastLast
Results 1 to 12 of 22

Thread: Qadiyaniyat ka makroh chehra

  1. #1
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Thanked
    0

    Cool Qadiyaniyat ka makroh chehra

    قادیانیت کا مکروہ چہرہ !

    کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب






    از: مولانا سعید احمد جلال پوری

    مدیر ماہنامہ بینات کراچی، پاکستان









    سوال: (4) ”حضرت محمد نے جہاد کا حکم کیوں دیا؟ جہاد کو اسلام کاپانچواں ضروری رکن کیوں قرار دیا؟“

    جواب: دیکھا جائے تو اس اعتراض کے پیچھے بھی مرزا غلام احمد قادیانی اوراس کی امت کی انگریز حکومت کی نمک خواری کا جذبہ کارفرما ہے، ورنہ مرزائیوں اور تمام دنیا کو معلوم ہے کہ جہاد کا حکم حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے نہیں ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے،اس لئے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ مرزائیوں، قادیانیوں اور ان کے باوا غلام احمد قادیانی کا اسلام اور قرآن پر نہ صرف یہ کہ ایمان نہیں؛ بلکہ ان کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔

    (۲) اگر قادیانی، قرآن کریم کو مانتے ہوتے اوراسے اللہ کا کلام سمجھتے ہوتے تو ان کو معلوم ہوتا کہ اگر آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے از خود جہاد کا حکم دینا ہوتا تو مکی دور میں اس کا حکم دیتے، جبکہ مسلمان کفار و مشرکین کے ظلم کی چکی میں پس رہے تھے، اگر جہاد کا معاملہ آپ صلى الله عليه وسلم کے قبضہ میں ہوتا تو آپ صلى الله عليه وسلم اپنے جاں نثاروں کو صبر کی تلقین کیوں فرماتے؟ حبشہ کی ہجرت کی اجازت کیوں دی جاتی؟ اپنا آبائی گھر چھوڑ کر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کیوں فرماتے؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کفار اور مشرکین مکہ کے مظالم کیوں برداشت کرتے؟

    (۳) ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو قرآن کریم میں جس طرح مسلمانوں کو جہاد پر آمادہ کرنے اور اس طرف متوجہ کرنے کے لئے فرمایا ہے، اس سے صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم مسلمانوں کے لئے قلت تعداد کے باعث ثقیل تھا، اور ان کے لئے جہاد کا حکم بجالانا کسی قدر مشکل تھا، چنانچہ مندرجہ ذیل آیات میں مسلمانوں کو جہاد کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا گیا:

    الف: ”اذن للذین یقاتلون بانہم ظلموا، وان اللّٰہ علی نصرہم لقدیر“. (الحج:۳۹)

    ترجمہ: ”حکم ہوا ان لوگوں کو جن سے کافر لڑتے ہیں،اس واسطے کہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ ان کی مدد کرنے پر قادر ہے۔“

    ب: ”یا ایہا النبی حرض المومنین علی القتال، ان یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مأتین، وان یکن منکم مائة یغلبوا الفا من الذین کفروا بانہم قوم لا یفقہون“. (الانفال: 6۵)

    ترجمہ: ”اے نبی شوق دلا مسلمانوں کو لڑائی کا، اگر ہوں تم میں بیس شخص ثابت قدم رہنے والے تو غالب ہوں دو سو پر اور اگر ہوں تم میں سے سو شخص تو غالب ہوں ہزار کافروں پر اس واسطے کہ وہ لوگ سمجھ نہیں رکھتے۔“

    ج: ”کتب علیکم القتال وہو کرہ لکم، وعسٰی ان تکرہوا شیئًا وہو خیرلکم، وعسٰی ان تحبوا شیئًا وہو شرلکم، واللّٰہ یعلم وانتم لاتعلمون“.(البقرہ:۲۱6)

    ترجمہ: ”فرض ہوئی تم پر لڑائی اور وہ بری لگتی ہے تم کو، اور شاید کہ تم کو بری لگے ایک چیز اور وہ بہتر ہو تمہارے حق میں اور شاید تم کو بھلی لگے ایک چیز اور وہ بری ہو تمہارے حق میں اور اللہ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔“

    ان آیات اوراسی طرح کی دوسری متعدد آیات سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کا حکم آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی جانب سے نہیں؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا، چونکہ اس وقت مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی، اور وہ ایک عرصہ سے کفار کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے، اور مسلمان بظاہر کفار کی تعداد اور قوت و حشمت سے کسی قدر خائف بھی تھے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو حکم دیا کہ ان کو جہاد پر آمادہ کیا جائے اور باور کرایا جائے کہ وہ کفار کی عددی کثرت سے خائف نہ ہوں بلکہ مسلمانوں کا ایک فرد کفار کے دس پر بھاری ہوگا۔

    (4) اسی طرح یہ بھی واضح کیاگیا کہ مسلمانوں کو یہ احساس بھی نہیں رہنا چاہئے کہ اب تک تو ہمیں کفار کے مظالم پر صبر کی تلقین کی جاتی رہی اور ان کی جانب سے دی جانے والی تکالیف و اذیتوں پر صبر و برداشت کا حکم تھا تو اب جوابی، بلکہ اقدامی کارروائی کا حکم کیونکر دیا جارہا ہے؟ تو فرمایاگیاکہ یہ صبر و برداشت ایک وقت تک تھی، اب اس کا حکم ختم ہوگیاہے اور جہاد و قتال کا حکم اس لئے دیا جارہا ہے کہ اب تمہارے صبر کا امتحان ہوچکا اور کفار کے مظالم کی انتہا ہوچکی۔

    نیز یہ کہ چونکہ اس وقت کفار، مشرکین اور ان کے مظالم، اشاعتِ اسلام میں رکاوٹ تھے اور وہ فتنہ پردازی میں مصروف تھے، اس لئے حکم ہوا کہ: ”وقاتلوہم حتی لاتکون فتنة“ یعنی کفار سے یہاں تک قتال کرو کہ کفر کا فتنہ نابود ہوجائے۔

    اسی طرح اس مضمون کو دوسری جگہ یوں ارشاد فرمایاگیا:

    الف: ”یایہا النبی جاہد الکفار والمنافقین واغلظ علیہم ومأوٰہم جہنم وبئس المصیر.“ (التوبہ:۷۳)

    ترجمہ: ”اے نبی! لڑائی کرکافروں سے اور منافقوں سے اور تندخوئی کر ان پر اور ان کا ٹھکانہ دوزخ ہے اور وہ بڑا ٹھکانا ہے۔“

    ب: ”قل ان کان آبائکم وابنائکم واخوانکم وازواجکم وعشیرتکم واموال ناقترفتموہا وتجارة تخشون کسادہا ومساکن ترضونہا احب الیکم من اللّٰہ ورسولہ وجہاد فی سبیلہ فتربصوا حتی یاتی اللّٰہ بامرہ، واللّٰہ لایہدی القوم الفٰسقین“ (التوبہ: ۲4)

    ترجمہ: ”تو کہہ دے اگر تمہارے باپ اور بیٹے اور بھائی اور عورتیں اور برادری اور مال، جو تم نے کمائے ہیں اور سوداگری، جس کے بند ہونے سے تم ڈرتے ہو اور حویلیاں جن کو پسند کرتے ہو، تم کو زیادہ پیاری ہیں اللہ سے اور اس کے رسول سے اور لڑنے سے اس کی راہ میں، تو انتظار کرو یہاں تک کہ بھیجے اللہ اپنا حکم اور رستہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو۔“

    ان آیات سے بھی واضح طور پر معلوم ہوا کہ جہاد کاحکم اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل ہوا ہے، بلکہ اس میں شدت کی تاکید ہے، اور جو لوگ اپنی محبوبات و مرغوبات کو چھوڑ کر جہاد کا حکم بجا نہیں لائیں گے، وہ اللہ کے عذاب کا انتظار کریں۔ بتلایا جائے کہ اگر اللہ کا رسول، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا مسلمان اس حکم الٰہی کو بجالائیں اور نصوص قطعیہ کی وجہ سے اُسے فرض جانیں تواس میں اللہ کے نبی، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟ نیز یہ بھی بتلایا جائے کہ جو لوگ طبعی خواہش اور نفس کے تقاضا کے خلاف سب مرغوبات و محبوبات کو چھوڑ کر اللہ کا حکم بجالائیں، وہ قابلِ طعن ہیں یا وہ، جو دنیاوی مفادات اور انگریزوں کی خوشنودی کی خاطر اللہ کے حکم کو پس پشت ڈال دیں؟

    بلاشبہ قادیانیوں کا یہ اعتراض ”اُلٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“ کے زمرے اور مصداق میں آتاہے۔

    (۵) اس سے ہٹ کر مشاہدات، تجربات، عقل اور دیانت کی روشنی میں اگر دیکھا جائے، تو اللہ کے باغیوں اور اللہ کی مخلوق پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کے خلاف جہاد یا اعلان جنگ عین قرینِ قیاس ہے۔

    اس لئے کہ دنیا کے دو پیسے کے بادشاہوں میں سے کسی کے خلاف اس کی رعایا کا کوئی فرد اعلان بغاوت کردے تو پہلی فرصت میں اس کا قلع قمع کیاجاتا ہے اور ایسے باغی کے خلاف پورے ملک کی فوج اور تمام حکومتی مشینری حرکت میں آجاتی ہے تاآنکہ اس کو ٹھکانے نہ لگادیا جائے۔



    اور مہذب دنیا میں ایسے باغیوں سے کسی قسم کی رعایت برتنے کا کوئی روادار نہیں ہوتا، اور نہ ہی ان کے حق میں کسی کو سفارش کرنے کی اجازت ہوتی ہے، بلکہ اگر ایسے باغی گرفتار ہوجائیں اور سوبار توبہ بھی کرلیں تو بھی ان کی جان بخشی نہیں ہوتی، اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی قوم، برادری یا افراد، خالق ومالک کائنات اور رب العالمین سے بغاوت کریں، اور خلق خدا پر،سکون و اطمینان کے ساتھ زندگی گزارنے کا راستہ بند کردیں، تو کیا اس رب العالمین اورمالک ارض و سما کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنی فوج کے ذریعہ ان شوریدہ سروں کا علاج کرے اور ان کو ٹھکانے لگائے؟ دیکھا جائے تو جہاد کا یہی مقصد ہے، اور یہ عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔

    (6) پھر جہاد صرف شریعت محمدی ہی میں شروع نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل دوسرے انبیاء کی شریعتوں میں بھی مشروع تھا، جیسا کہ بائبل میں ہے:

    ”پھر ہم سے مڑکر بسن کا راستہ لیااور بسن کا بادشاہ عوج اور عی میں اپنے سب آدمیوں کو لے کر ہمارے مقابلہ میں جنگ کرنے کو آیا، اور خداوند نے مجھ سے کہا: اس سے مت ڈرو کیونکہ میں نے اس کو اور اس کے سب آدمیوں اور ملک کو تیرے قبضہ میں کردیا ہے، جیسا تونے اور یوں کے بادشاہ سیحون سے جو حسبون میں رہتا تھا کیا، ویساہی تو اس سے کرے گا؟ چنانچہ خداوند ہمارے خدانے لبسن کے بادشاہ عوج کو بھی اس کے سب آدمیوں سمیت ہمارے قابو میں کردیا اور ہم نے ان کو یہاں تک مارا کہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہا، اور ہم نے اسی وقت اس کے سب شہر لے لئے اور ایک شہر بھی ایسا نہ رہا جو ہم نے ان سے نہ لے لیا ہو... اور جیسا ہم نے سیحون کے بادشاہ سیحون کے ہاں کیا ویسا ہی ان سب آباد شہروں کو مع عورتوں اور بچوں کے بالکل نابود کرڈالا۔“ (استثنا، باب: ۳، آیت: ۱،۲،۳، اور 6)

    اسی طرح باب:۲، آیت: ۱۰ تا ۱4 میں ہے:

    ”جب تو کسی شہر سے جنگ کرنے کو اس کے نزدپہنچے تو پہلے اسے صلح کا پیغام دینا، اگر وہ تجھ کو صلح کا جواب دے اور اپنے پھاٹک تیرے لئے کھول دے تو وہاں کے سب باشندے تیرے باج گزار بن کر تیری خدمت کریں، اور اگر وہ تجھ سے صلح نہ کریں بلکہ تجھ سے لڑنا چاہے تو، اس کا محاصرہ کرنا اور جب خداوند تیرا خدا اسے تیرے قبضہ میں کردے تو وہاں کے ہر مرد کو تلوار سے قتل کرڈالنا، لیکن عورتوں اور بال بچوں اور چوپائیوں اور اس شہر کے سب مال اور لوٹ کو اپنے لئے رکھ لینا اور تو اپنے دشمنوں کی اس لوٹ کو جو خداوند تیرے خدا نے تجھ کو دی ہو، کھانا۔“

    سوال (۵) ”مالِ غنیمت کے طور پر دشمن کی عورتیں مسلمانوں کے لئے کیوں حلال قرار دیں؟ کیا عورتیں انسان نہیں بھیڑبکریاں ہیں، جنہیں مالِ غنیمت کے طورپر بانٹا جائے اور استعمال کیا جائے؟“

    جواب: دشمن سے لڑائی، قتال اور جہاد کی صورت میں ان کے جو افراد گرفتار ہوجائیں وہ قیدی کہلاتے ہیں، پھر اگر مسلمان فوج کے کچھ افراد مخالفین کے ہاتھوں گرفتار ہوجائیں تو کفار قیدیوں سے تبادلہ کرکے مسلمانوں کو چھڑایا جائے گا، اس کے علاوہ جو بچ رہیں گے، ان کو غلام اور لونڈیاں قرار دے کر انہیں مسلمان فوجیوں میں بطور مال غنیمت تقسیم کردیا جائے گا، اس کا نام ہے: ”غلامی کا مسئلہ“۔

    غلامی کے اس مسئلہ پر عام طور پر اسلام دشمن یہ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، اور مسلمانوں کی جانب سے یہ انسانوں پر ظلم ہے۔

    اس عنوان سے عیسائی دنیا اور انسانی حقوق کے نام نہاد علم بردار بھی اعتراض کیاکرتے ہیں، قادیانیوں کا اس مسئلہ پر اعتراض کرنا دراصل اپنے عیسائی آقاؤں کی ہم نوائی اور ان کی ہاں میں ہاں ملانے کے مترادف ہے؛ بلکہ ان کے منہ کی بات چھین کر اپنے منہ سے نکالنے کی مانند ہے، جبکہ قادیانیوں اور ان کے آقاؤں کو معلوم ہونا چاہئے کہ غلامی کا مسئلہ اسلام نے جاری نہیں فرمایا؛ بلکہ یہ قبل از اسلام عیسائیوں اور یہودیوں میں بھی جاری تھا، چنانچہ غلاموں اور لونڈیوں کا تذکرہ خود بائبل میں بایں الفاظ موجود ہے:

    الف: ”اور یعقوب نے لابن سے کہاکہ میری مدت پوری ہوگئی، سو میری بیوی مجھے دے تاکہ میں اس کے پاس جاؤں تب لابن نے اس جگہ کے سب لوگوں کو بلاکر جمع کیا اور ان کی ضیافت کی، ... اور لابن نے اپنی لونڈی زلفہ، اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔“ (پیدائش، باب: ۲۹، آیت: ۲۱ تا ۲4)

    ب: باب: ۳۰، آیت: ۹ میں ہے:

    ”اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بھی یعقوب سے ایک بیٹا ہوا۔“

    ج: استثناء باب: ۲۳، آیت: ۱۵، ۱6 میں ہے:



    = =
    =

  2. #2
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Lightbulb

    اگر کسی کا غلام اپنے آقاکے پاس سے بھاگ کر تیرے پاس پناہ لے تو تو اسے اس کے آقا کے حوالہ نہ کردینا۔“

    اس کے علاوہ قبل از اسلام مشرکین مکہ میں بھی غلامی کا رواج تھا، بلکہ یہود ونصاریٰ سے لے کر کفار ومشرکین مکہ تک سب ہی لوگ غلاموں اور لونڈیوں کو کسی انسانی سلوک کا مستحق نہیں سمجھتے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ وہ لوگ ایک آزاد انسان کو پکڑ کر زبردستی غلام بناکر بیچ دیتے تھے۔ جبکہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے اس کی شدید مذمت فرمائی اور قرآن کریم نے مسلمانوں کو غلاموں کے ساتھ اسی طرح کے حسنِ سلوک اور نیک برتاؤ کی تلقین اور تاکید فرمائی، جس طرح کے وہ اپنے والدین کے ساتھ سلوک کے روادار تھے۔ ملاحظہ ہو ارشادِ الٰہی:

    ”واعبدوا اللّٰہ ولاتشرکوا بہ شیئًا وبالوالدین احساناً وبذی القربٰی والیتٰمٰی والمساکین والجار ذی القربٰی والجار الجنب والصاحب بالجنب وابن السبیل وما ملکت ایمانکم، ان اللّٰہ لایحب من کان مختالاً فخورًا۔“(النساء: ۳6)

    ترجمہ: ”اور بندگی کرو اللہ کی اور شریک نہ کرو اس کا کسی کو اور ماں باپ کے ساتھ نیکی کرو اور قرابت والوں کے ساتھ اور یتیموں اور فقیروں اور ہمسایہ قریب اورہمسایہ اجنبی اور پاس بیٹھنے والے اور مسافر کے ساتھ اور اپنے ہاتھ کے مال یعنی غلام باندیوں کے ساتھ، بے شک اللہ کو پسند نہیں آتا اترانے والا بڑائی کرنے والا۔“

    دیکھا جائے تو اس آیت شریفہ میں دو قسم کے احکام ایک ہی جگہ اور ایک ہی سیاق و سباق میں بیان کئے گئے ہیں، ایک: اللہ تعالیٰ کی عبادت اور دوسرے: اس کی مخلوق سے حسنِ سلوک اور نیکی کا برتاؤ کرنا۔ پھر دوسرے حصہ میں بطور خاص کچھ ایسے لوگوں کو مخصوص کرکے بیان کیاگیا ہے، جن کے ساتھ انسان نیکی میں بے اعتنائی برتتا ہے، تاکہ ان کی طرف زیادہ توجہ ہو۔ گویا ان دونوں احکام کو ایک ہی جگہ بیان کرنے کا مقصود یہ ہے کہ جیسے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا، اس کا شریک نہ ٹھہرانا اسلام لانے کے لئے ضروری ہے، ویسے ہی اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی کرنا بھی ضروری ہے، کیونکہ شریعت کے یہی دو اہم اجزاء ہیں، ایک اللہ تعالیٰ سے سچا تعلق، اس کی طاعت و عبادت اور دوسرے اس کی مخلوق کے ساتھ نیکی کا معاملہ۔

    پس جہاں بائبل میں غلاموں کے ساتھ حسن سلوک سے متعلق ایک حرف بھی نہیں کہا گیا، وہاں قرآن کریم میں ان کے ساتھ سلوک کو اس قدر ضروری قرار دیاگیا ہے، جیسے والدین کے ساتھ حسن سلوک کو، لہٰذا جیسے والدین کے ساتھ حسن سلوک ضروری ہے ویسے ہی غلاموں کے ساتھ حسن سلوک بھی ضروری ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت، والدین کے ساتھ حسن سلوک اور غلاموں کے ساتھ نیک برتاؤ کو ایک ہی آیت میں اور ایک ہی قسم کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے۔ جس سے واضح ہوتاہے کہ غلامی کا مسئلہ اگرچہ پہلے سے جاری تھا، جس کو اسلام نے بھی بعض ناگزیر وجوہ کی بنا پر باقی رکھا، مگر دنیائے عیسائیت اور کفر و شرک کی زیادتیوں سے ہٹ کر اسلام نے مسلمانوں کو ان کے ساتھ حسن معاشرت کا درس دیااور اس کی تاکید کی، چنانچہ غلاموں کے ساتھ مسلمانوں کی جانب سے حسن سلوک کی اس اظہرمن الشمس حقیقت کا کوئی دشمنِ اسلام بھی انکار نہیں کرسکتا، یہی وجہ ہے عیسائی مصنف ہلیو اپنی کتاب ڈکشنری آف اسلام میں کھلے دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ:

    ”یہ بالکل صاف امر ہے کہ قرآن شریف اور احادیث میں غلاموں کے ساتھ نیکی کرنے کی بڑے زور کے ساتھ تاکید کی گئی ہے۔“

    غلاموں کے ساتھ اسی حسن برتاؤ اور اسلام میں ان کی اسی اہمیت و عظمت کو دیکھ کر ایک صحابی رسول یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ:

    ”والذی نفسی بیدہ لولا الجہاد فی سبیل اللّٰہ والحج وبرّ اُمّی لاحببت ان اموت وانا لملوک“.

    ترجمہ: ”قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہٴ قدرت میں میری جان ہے، اگر جہاد فی سبیل اللہ، حج اور اپنی ماں کی خدمت کا معاملہ نہ ہوتا تو میں پسند کرتا کہ میں غلامی کی حالت میں مروں۔“

    یہ ایک آزاد اور صحابی رسول کی آرزو اور تمناہے، کیونکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے غلاموں کے ساتھ جس حسن سلوک کا حکم دیا اور جس طرح اس کی تاکید فرمائی،اس کو دیکھ کر کون ایسا ہوگا جو اپنے آپ کو غلام نہ بنالیتا، چنانچہ غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کے سلسلہ میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے:

    ”ان اخوانکم خولکم جعلہم اللّٰہ تحت ایدیکم فمن کان اخوہ تحت یدہ فلیطعمہ مما یأکل ولیلبسہ مما یلبس ولا تکلفوہم ما یغلبہم فان کلفتموہم فاعینوہم.“ (صحیح بخاری، ص:۹، ج:۱)

    ترجمہ: ”یعنی یہ تمہارے بھائی تمہارے خدمت گار ہیں، اللہ تعالیٰ نے انہیں تمہارے قبضہ میں دیاہے، بس جس شخص کا بھائی اس کے ہاتھ کے نیچے یعنی قبضہ میں ہو، اسے چاہئے کہ جو چیز وہ خود کھائے، اسے بھی وہی کھلائے،اور جو لباس خود پہنتا ہے،اسے بھی اسی طرح کا پہنائے اور ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالو اور اگر ان کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ ڈالو تواس میں ان کی مدد کرو۔“
    غرض غلامی کا رواج یہودیت، عیسائیت، ہندومت، تمام یورپی اقوام اور قبل از اسلام کفار ومشرکین سب کے ہاں تھا، مگر غلاموں کے ساتھ حسن سلوک، ان کے حقوق کی پاسداری اور ان کی آزادی کی اہمیت پر جس قدر اسلام اور پیغمبر اسلام نے زور دیا ہے دیگر مذاہب میں اس کا دسواں حصہ بھی نہیں پایا جاتاہے۔

    دیکھاجائے تو اسلام کو غلامی کے مسئلہ میں طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے والوں کا دامن اس مسئلہ میں سب سے زیادہ داغدار ہے، کیونکہ اسلام کے سوا کسی مذہب میں بھی غلاموں کے اخلاقی اور معاشرتی کسی قسم کے حقوق کا ذرہ بھر تذکرہ نہیں تھا، بلکہ بائبل میں تو صرف غلاموں کو اس کی تلقین تھی کہ وہ اپنے آقاؤں کی ایسی اطاعت کریں، جیسے کوئی عیسائی اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کیا کرتا ہے اور غلاموں کو تلقین تھی کہ اگر کوئی اپنے آقاکے پاس سے بھاگ جائے تو واپس اپنے آقا کے پاس چلاجائے، اس کے مقابلہ میں غلاموں کے آقاؤں کو ایسی کوئی ہدایت نہ تھی کہ وہ اپنے غلاموں کے ساتھ کیسا برتاؤ کریں؟ اور نہ ہی اس پر کوئی قدغن تھی کہ کوئی شخص کسی آزاد کو غلام بنالے، یہی وجہ ہے کہ افریقہ کے نیگروؤں کو عیسائیوں کے ہاں پکڑپکڑ کر غلام بنایاجاتاتھا۔ چنانچہ غلامی کی رسم ختم کرنے کے دعویداروں کے منہ پر اس سے زیادہ زوردار طمانچہ کیا ہوگا کہ انسائیکلوپیڈیا آف ریلجن اینڈ ایتھکس کا مقالہ نگار لکھتا ہے کہ:

    ”۱4۲۲/ میں گنزلس نے دس غلام پرتگال کے شاہزادہ ہنری کو بطور تحفہ پیش کئے۔ ۱44۳/ میں ننیزٹریسٹن افریقہ کے لئے ایک مہم پر بحری راستہ سے روانہ ہوا اور چودہ غلاموں کو لے کر واپس آیا، افریقہ کے لوگ فطرتاً ان حملوں کو ناپسند کرتے تھے، جو ان کو غلام بنانے کی غرض سے کئے جاتے تھے۔ یورپین تاجر اپنے حملوں کے عذر پیدا کرنے کے لئے اہل افریقہ میں آپس میں جنگ کرادیتے تھے۔ ۱۵6۲/ میں سرجان ہاکنگ گونیا کے لئے روانہ ہوا اور تین سو غلام حاصل کئے، پھر ان کو فروخت کرکے انگلینڈ چلا آیا۔ فرانسیسی، اسپینی اور ڈچ ان سب کے ہاں غلاموں کی تجارت کا سلسلہ برابر جاری رہا، لیکن انگریزوں کے ہاں اس کا سراغ چارلس کے اس فرمان تک نہیں ملتا، جو اس نے ۱6۳۱/ میں افریقہ کمپنی کے نام اس مضمون کا لکھا تھا کہ: وہ برطانوی علاقوں کے لئے افریقی غلام مہیا کرے۔ ۱64۰/ میں تیرہویں لوئس نے ایک فرمان اس مضمون کا شائع کیا کہ تمام وہ افریقی جو فرانس کی نوآبادیات میں سکونت رکھتے ہیں، بہرحال غلام بنائے جاسکتے ہیں۔ ۱6۵۵/ میں کرومویل نے جمیکا کو اسپین والوں سے چھینا تو دیکھا کہ وہاں پندرہ سو سفید فام اور اتنے ہی نیگرو غلام موجود ہیں اور خود وہاں کے رہنے والوں کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ ۱66۲/ میں تیسری افریقہ کمپنی قائم ہوئی، اس کا مقصد یہ تھا کہ برطانوی مغرب کی ہندوستانی نوآبادیات میں تین ہزار غلام سالانہ مہیا کئے جائیں۔ ۱6۷۹/ اور ۱6۸۹/ کے درمیان صرف دس برس کی مدت میں کم و بیش ساڑھے چار ہزار غلام ہر سال برطانوی نوآبادیات میں آباد کئے جاتے رہے۔ فرانس کرونے ۷/مارچ ۱6۸۷/ کو ان غریبوں کی سرگزشت لکھتے ہوئے بیان کیا ہے کہ: ”اس جگہ کی سب سے بڑی تجارت ان غلاموں کی ہے جن کو یہاں لایا جاتا ہے، یہ لوگ یہاں بالکل مادر زاد برہنگی کے ساتھ آتے ہیں اور ان کے گاہک ان کا منہ کھول کھول کر دیکھتے ہیں اوران کا امتحان گھوڑوں اور چوپاؤں کی طرح کرتے ہیں۔“ ۱۷۱۳/ میں انگریزوں اور اسپینیوں کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا، اس کی رو سے انگلینڈ نے اس بات کا وعدہ کیاتھا کہ اسپین والوں کو تیس سال تک برابر چار ہزار آٹھ سو غلام سالانہ مہیاکرتا رہے گا، غلاموں کی تجارت سے جو نفع حاصل ہوتاتھا، انگلینڈ اور اسپین دونوں کے بادشاہ اس میں ایک حصہ کے شریک تھے۔ افریقہ کے غلاموں کی تجارت کا سلسلہ برابر جاری رہا، یہاں تک کہ ۱۷۸۸/ میں جب غلامی کے انسداد کے لئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیاگیاتو اندازہ کیا جاتا ہے کہ اس وقت افریقہ سے ہر سال دو لاکھ غلام لے جائے جاتے تھے، جن میں سے ایک لاکھ امریکا وغیرہ اور بقیہ افریقہ کے مشرقی ساحل سے ایران اور کچھ تھوڑے سے وسط افریقہ سے ترکی اور مصر لے جائے جاتے تھے۔“ (بحوالہ اسلام میں غلامی کا تصور، مولانا سعید احمد اکبرآبادی،ص:46)

    غلامی کو ختم کرنے کے نام نہاد دعویداروں کے بلند و بانگ دعوؤں کے باوجود، ان کے پاس اس وقت بھی پچاس لاکھ غلام موجود تھے، جبکہ مسلمانوں کے ہاں غلامی کا تصور کبھی کا معدوم ہوچکا تھا، چنانچہ ۱6/اپریل ۱۹۳۸/ کے اخبار نیشنل کال کی ایک خبر ملاحظہ ہو:

    ”جنیوا میں جمعیت اقوام کی مشورہ کمیٹی جو چند ممبران پر مشتمل ہے اور جو غلامی کے مسئلہ پر غور و خوض کرنے کے لئے مقرر کی گئی ہے،اس نے ۳/مارچ سے ۱۲/اپریل ۱۹۳۸/ تک اپنے اجلاس کئے، ۱۹۳۰/ لیگ اسمبلی لارڈسیل نے برطانوی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے فرمایا کہ: دنیا میں اب بھی کم از کم پانچ ملین یعنی پچاس لاکھ غلام موجود ہیں، یہ سب اس کے باوجود ہے کہ ۱۹۲6/ میں جمعیت اقوام کی مجلس میں یہ اعلان کیاگیا تھا کہ دستخط کرنے والی حکومتیں جن کی تعداد ۲۸ تھی، اپنے اپنے علاقوں میں غلاموں کی تجارت کو تشدد آمیز حکمت عملی سے کام لے کر بالکل ختم کردیں گی۔ ان حکومتوں میں امریکا کی ریاست ہائے متحدہ بھی شامل تھیں، اس مشورہ کمیٹی کے تقرر کا یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ غلام حاصل کرنے کے لئے جو باقاعدہ اور منظم حملے ہوتے تھے، وہ رک گئے۔“ (بحوالہ اسلام میں غلامی کا تصور، ص:4۸)

    قارئین اور خصوصاً قادیانی بتلائیں کہ غلامی کی لعنت کو رواج دینے والے مسلمان ہیں؟ یا ان کے آقا عیسائی؟ اسلام میں غلامی کی ایک ہی صورت ہے اور وہ یہ کہ مسلمان فوج کفار سے جنگ کرے اور کفار مرد و خواتین گرفتار ہوکر آئیں، تو انہیں غلام و لونڈی بنالیاجائے اور بس۔ اس کے علاوہ اسلام نے دوسری تمام صورتوں کو ناجائزوحرام قرار دیا ہے۔

  3. #3
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    اگر دیکھا جائے تو اس صورت میں بھی غلامی کا طوق کفار نے اپنے گلے میں خود ہی ڈالا ہے، ورنہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کی، مسلمان فوجیوں کو یہ ہدایت تھی کہ: کسی علاقہ کے فتنہ پرور کفار سے جہاد کے وقت عین میدان کارزار میں بھی پہلے انہیں اسلام کی دعوت دی جائے، مان جائیں تو فبہا، ورنہ دوسرے نمبر پر ان کو کہا جائے کہ بے شک تم اپنے مذہب پر رہو، مگر اسلامی مملکت کے پُرامن شہری بن کر رہو، اور اسلامی حکومت کو جزیہ اور ٹیکس دیا کرو، چنانچہ اگر وہ اس کے لئے راضی ہوجائیں تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ ان کی جان، مال اور عزت کی حفاظت کی ذمہ داری مسلمانوں پر فرض ہے۔ جزیہ دینے کے باوجود بھی اگر کسی مسلمان نے ان کے ساتھ زیادتی کی تو پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کا فرمان ہے کہ:

    ”... الا من ظلم معاہدًا او تنقصہ او کلفہ فوق طاقتہ او اخذ منہ شیئاً بغیر طیب نفس فانا حجیجہ یوم القیامة“. (ابوداؤد،ص:۷۷، ج:۲)

    یعنی کل قیامت کے دن میں اس غیرمسلم ذمی کی طرف سے بارگاہ الٰہی میں زیادتی کرنے والے مسلمان کے خلاف اس غیرمسلم کے وکیل صفائی کا کردار ادا کروں گا۔

    گویا اس سے واضح ہوا کہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم نے کفار و مشرکین کی حریت و آزادی پرقدغن لگانے اور ان کو غلام بنانے کی حتی الامکان ممانعت فرمائی ہے، لیکن اگر کوئی کوتاہ قسمت غیرمسلم، اسلام کی طرف سے دی گئی ان لازوال سہولیات سے فائدہ نہیں اٹھاتا، تو اس کا معنی یہ ہے کہ وہ خود ہی اپنی حریت و آزادی کا دشمن اور اسے ختم کرنے کا ذمہ دار ہے۔

    اس کی مثال بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی بادشاہ یا حکومت نے اعلان کیا ہو کہ جو شخص ناحق قتل اور ڈاکا زنی کا مرتکب پایاگیا، اُسے زندگی بھر جیل میں رہنا ہوگا۔ اب اگر کوئی بدنصیب حکمِ شاہی کے علی الرغم ان جرائم کا مرتکب پایا جائے اور حکومت اُسے عمر قید کی سزا سنادے تو اس سزا کا ذمہ دار وہ مجرم ہے یا حکومتِ وقت؟ کیا ایسی صورت میں حکومت قابل ملامت ہے یا وہ مجرم؟

    بہرحال غلامی کا رواج تو پہلے سے ہی تھا، اب مسلمانوں کے سامنے دو شکلیں تھیں، یا تو وہ بھی جنگ میں گرفتار ہوکر آنے والے قیدیوں کو سابقہ ظالم اقوام کی طرح یکسر قتل کردیتے، یا انہیں زندہ رکھ کر ان کو دنیا کی زندگی سے نفع اٹھانے اور آخرت کے معاملہ میں غور وفکر کا موقع دیتے! ظاہر ہے کہ دوسری صورت ہی قرین عقل و قیاس ہے۔

    پھر غلاموں کو زندہ رکھ کر یا تو یورپی اقوام کی طرح ان کے ساتھ جانوروں کا سا سلوک کیاجاتا، یا پھر انہیں مسلم معاشرہ کا حصہ بننے، مسلمانوں میں شادی بیاہ کرنے اور اسلامی معاشرہ کی لازوال خوبیوں سے سرفراز ہونے کا موقع فراہم کیاجاتا۔ چنانچہ اسلام نے غلاموں کے ساتھ شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے نکاح کے معاملہ میں مسلمان غلاموں کو مشرکین پر اور مسلمان لونڈیوں کو کافر و مشرک خواتین پر ترجیح دی۔ (البقرہ:۲۲۱، ۲۲۲) اور ان کے حقوق بھی متعین فرمائے۔

    عیسائیوں اور قادیانیوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ مسلمان، لونڈیوں کے ساتھ بلا نکاح جنسی تعلقات کیوں قائم کرتے ہیں؟

    اگر کوئی مسلمان یہ اعتراض کرتا تو شاید قابل سماعت ہوتا، مگر وہ لوگ، جن کی جنسی بے راہ روی انتہا کو پہنچی ہوئی ہو، جن کے ہاں نکاح کی بجائے زناکاری وبدکاری کو قانونی تحفظ حاصل ہو اور جن کے بڑے، چھوٹے اس بلا میں گرفتار ہوں، ان کو اس اعتراض کا کیا حق پہنچتا ہے؟ بہرحال ہم اس کا بھی جواب دئیے دیتے ہیں:

    الف: ہم نے گزشتہ صفحات میں بائبل کے حوالہ سے یہ بات نقل کی ہے کہ: ”لابن نے اپنی لونڈی زلفہ، اپنی بیٹی لیاہ کے ساتھ کردی کہ اس کی لونڈی ہو۔“ اسی طرح: ”اور لیاہ کی لونڈی زلفہ کے بھی یعقوب سے ایک بیٹا ہوا۔“ بتلایا جائے اس میں لونڈی سے نکاح کا کہاں تذکرہ ہے؟ ایسے ہی حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارہ میں وارد اس تصریح میں کہ : سلیمان کی سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔ (سلاطین:۱۱-۳) میں بیویوں اور کنیزوں میں فرق کیوں کیاگیا؟ اور کنیزوں سے ان کے نکاح کا کہاں تذکرہ ہے؟

    ب: غلام اور لونڈیاں جب مسلمانوں کے قبضہ میں آگئیں تو ظاہر ہے ان کا اپنے اپنے سابقہ ملک و قوم اور رشتہ داروں سے تعلق منقطع ہوگیا، اب یا تو انہیں یوں ہی جنگی قیدیوں کی طرح زندگی بھر اذیت میں رکھا جائے اور ان کے جنسی تقاضوں کو یکسر نظر انداز کردیا جائے... جو بالکل ناجائز اور ظلم ہوگا... یا پھر انہیں بدکاری و زناکاری کی اجازت دے دی جائے، جس سے شاید ان کی جنسی تسکین تو ہوجائے گی، مگر اس سے جہاں ان کی دنیا و آخرت برباد ہوگی اور وہ معاشرہ پر بدنما داغ ہوں گے، وہاں وہ مسلم معاشرہ میں گندگی، غلاظت اور معاشرتی بے راہ روی کا ذریعہ بھی بنتے، اس لئے اسلام نے تباین دارین (مسلم وکافر ملک کے درمیان دوری) کو طلاق یا بیوگی کے قائم مقام تصور کرتے ہوئے استبراءِ رحم (رحم کی صفائی) کا حکم دے کر لونڈیوں کے مالکوں کو حکم دیا کہ یا تو ان کا کسی اچھی جگہ عقد نکاح کردیا جائے یا پھر حق ملکیت کی بناپر ان کی جنسی تسکین کا خود انتظام کریں، اس سے جہاں ان کی فطری ضرورت پوری ہوگی، وہاں اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ جب آقا اور مالک اپنی باندی اور مملوکہ سے گھر کے تمام کاموں میں امداد لے گا اور ساتھ ہی اس کے ساتھ ہم بستر ہوگا تو نفسیاتی طور پر باندی کی حیثیت بالکل ایک خادمہ اور اجنبیہ کی سی نہیں رہے گی؛ بلکہ وہ اس کے ساتھ ایک گونہ انسیت و محبت محسوس کرے گا اور یہ احساس مالک و مملوکہ کے تعلقات کو خوشگوار بنانے کا باعث ہوگا، پھر اگر اس باندی سے بچہ بھی پیداہوگیا تو یہ ام ولد یعنی اس کے بچوں کی ماں بن جائے گی اور مالک کی موت پر وہ آزاد ہوجائے گی، جس سے معلوم ہوا کہ مالک کے باندی سے اس جنسی تعلق کا سراسر فائدہ باندی ہی کو ہے اور اس کے حق میں ہی مفید ہے، کیونکہ اس سے باندی کی آزادی کی ایک راہ نکلتی ہے اور وہ اپنے آقا ومالک کے گھر میں گھر کی مالکہ کی حیثیت سے رہنے کی حق دار ہوگی۔

    بتلایا جائے عیسائی معاشرہ کسی باندی کے ساتھ اس حسن سلوک کا روادار ہے؟ ... نہیں، قطعاً نہیں... بلکہ وہ تو اپنی منکوحہ کو بھی داشتہ کے روپ میں دیکھنا چاہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج مغرب اور مغربی معاشرہ میں نکاح پر زنا کو ترجیح حاصل ہے۔

    ج: غلام اور باندی کے اپنے آقا ومالک کے ساتھ رہنے میں ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ ان کے اخلاق کی تربیت ہوگی اور ان کی تعلیم و تربیت کا ذریعہ بنے گا، یہی وجہ ہے کہ سوائے چند استثنائی صورتوں کے، مسلمانوں کے پاس آنے والے کافر ومشرک غلاموں اور لونڈیوں میں سے نہ صرف یہ کہ سب مسلمان ہوگئے بلکہ ان میں سے بہت سے حضرات کو مسلمانوں کی ریاست وامارت کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ، جو جیش اسامہ کے امیر تھے، ایک غلام زادہ تھے۔ اسی طرح حضرت عمررضی اللہ عنہ کے نمائندہ اور شاہ مصر کے دربار میں جانے والے وفد کے سردار حضرت عبادہ، حبشی اور غلام تھے، اس کے علاوہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیت المقدس کی فتح کے موقع پر اپنے غلام کو سواری پر سوار کرکے، اس کی سواری کے ساتھ ساتھ بھاگنا، کیا اس بات کی کافی دلیل نہیں کہ اسلام اور پیغمبر اسلام نے غلاموں کے بارہ میں مسلمانوں کو ہدایات اور ان کے حقوق کی پاسداری کی خصوصی تلقین فرمائی تھی، جس سے ان کی حیثیت بلاشبہ کسی آزاد سے کچھ کم نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بعض غلاموں کو جب ان کے مالکوں کی طرف سے آزادی کی اطلاع ملتی تو بجائے خوش ہونے کے اس پر روتے تھے۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو جب ان کے والدین تلاش کرتے کرتے بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور آپ صلى الله عليه وسلم سے ان کو ساتھ لے جانے کی درخواست کی اور آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو والدین کے ساتھ جانے اور نہ جانے کا اختیار دے دیا تو انھوں نے آزادی اور والدین کے ساتھ جانے پر غلامی اور حضور صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں رہنے کو ترجیح نہیں دی؟کیا اب بھی عیسائیوں ، قادیانیوں کو مسلمانوں کے غلاموں کے ساتھ حسن سلوک پر اعتراض کا حق ہے؟

    سوال (6) ”مذہب کے نام پر قتل وغارت گری کو جہاد قرار دے کر اسے اسلام کا پانچواں بنیادی رکن بنانے کی سزا ماضی کے لاکھوں کروڑوں معصوم انسان بے شمار جنگوں کے نتیجے میں اپنی جان مال سے محروم ہوکر بھگت چکے ہیں اور عراق، افغانستان جنگ کی شکل میں آج بھی بھگت رہے ہیں، آخر اس ”جہاد“ کو بذریعہ اجتہاد ”جارحیت“ کے بجائے ”دفاع“ کے لئے کیوں استعمال نہیں کیا جاتا؟“

    جواب: اس سوال کا جواب کسی قدر چوتھے سوال کے جواب کے ضمن میں آچکا ہے اور ثابت کیا جاچکا ہے کہ جہاد کاحکم حضرت محمد صلى الله عليه وسلم نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے دیا ہے۔

    نیز یہ بھی واضح ہوچکا ہے کہ اسلام نے جہاد کا حکم کفر وشرک کے فتنہ کے استیصال کے لئے دیا ہے اور یہ عقل وانصاف کے عین مطابق ہے، اگر دنیا کے دو پیسے کے حکمراں، اپنی مخالفت اور بغاوت کرنے والوں کی سرکوبی، ان کے فتنہ کو ختم کرنے اور اپنے اقتدار کے تحفظ کے لئے لاکھوں انسانوں کا خون بہاسکتے ہیں تو مالک ارض و سما کی ذات، جس نے جنوں اورانسانوں کو اپنی طاعت و عبادت کے لئے پیدا فرمایا تھا، اگر وہ (جن وانس) اس سے بغاوت کا ارتکاب کریں تو کیا اس ذات کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے نمائندوں اور اپنی سپاہ کے ذریعہ ان کی سرکوبی کرے؟ اسلامی جہاد کے نام پر نام نہاد قتل وغارت گری کا طعنہ دینے والوں کو شاید یہ یاد نہیں رہا کہ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی پوری ۲۳ سالہ نبوی تاریخ گواہ ہے کہ اس عرصہ میں صرف ساڑھے تین سو مسلمانوں شہید ہوئے اور اس سے کچھ زیادہ کفار بھی کام آئے، نامعلوم اس کے مقابلہ میں ان کو اسلام دشمنوں کی انسانیت کشی کی تاریخ کے سیاہ کارنامے کیوں بھول جاتے ہیں؟ اورانہیں یہ کیوں یاد نہیں رہتا کہ مسلمانوں کو دہشت گرد اور جہاد کو دہشت گردی کہنے والے درندوں نے کس قدر انسانوں کو تہ تیغ کیاہے؟

    ہیروشیما، ناگاساکی میں لاکھوں انسانوں کا قتل عام، بوسنیا ہرزیگوینا میں مختصر عرصہ میں پانچ لاکھ انسانوں کو موت کی نیندسلانا، فلسطین، بیروت، افریقہ، افغانستان، عراق اور لبنان کی حالیہ تباہی، کن کے ہاتھوں ہورہی ہے؟

    قادیانیو! اپنے آقاؤں سے پوچھو، کہ اس وقت روس، امریکا اور دنیا بھر کی عیسائیت ویہودیت کون سے جہاد کے نام پر انسانیت کشی کا کارنامہ انجام دے رہی ہے؟

    کیا جرمنی کے ہٹلر کی انسان کشی بھی جہاد کے نام پر تھی؟ اسی طرح ویتنام اور وسط ایشیا میں آدم دشمنی کس نے کی؟ کیا اس کو بھی اسلام اور اسلامی جہاد کا نتیجہ قرار دیا جائے گا؟

    قادیانیو! اگر تمہارے اندر ذرہ بھر شرم و حیا کی رمق اور انسانیت سے خیرخواہی ہے تو ڈوب مرو، اور جہاد کو مطعون کرنے کے بجائے اپنے آقاؤں سے کہو کہ انسانیت کشی کے اس بدترین کھیل سے باز آجائیں۔

    دیکھا جائے تو جہاد کا مقدس فریضہ ایسے ہی درندوں کو سبق سکھانے اور ان کی راہ روکنے کا موٴثر ذریعہ ہے، مگر چونکہ تمہارے آقاؤں نے کہا کہ یہ دہشت گردی ہے، اس لئے تم اور تمہارے باوا مرزا غلام احمد قادیانی اس کو حرام قرار دینے کے لئے گزشتہ سو سال سے اپنی تمام صلاحیتیں صرف کرنے میں مصروف ہو۔

    مگر میرے آقا کا فرمان ہے کہ: ”الجہاد ماض الی یوم القیامة“ (مجمع الزوائد، ص:۱۰6، ج:۱) (جہاد قیامت تک جاری رہے گا) اور اس کے ذریعہ مسلمان، عیسائیوں اور قادیانیوں کی راہ روکتے رہیں گے۔[/

  4. #4
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    سوال: ۷- ”حضرت محمد نے مرد کے مقابلے میں عورت کی گواہی آدھی کیوں قرار دی؟“

    جواب: یہ اعتراض بھی قادیانیوں کی دناء ت، سفاہت، جہالت اور لاعلمی بلکہ ان کی کوڑھ مغزی کا منہ بولتا ثبوت ہے، اس لئے کہ مرد کے مقابلہ میں عورت کی آدھی گواہی کا حکم، حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، دوسرے لفظوں میں یہی حکمِ الٰہی ہے، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

    ” وَاسْتَشْهِدُواْ شَهِيدَيْنِ من رِّجَالِكُمْ فَإِن لَّمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّن تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاء أَن تَضِلَّ إْحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا “[البقرة : 282]

    ترجمہ: ”اور گواہ کرو دو شاہد اپنے مردوں میں سے، پھر اگر نہ ہوں دو مرد تو ایک مرد اور دوعورتیں ان لوگوں میں سے کہ جن کو تم پسند کرتے ہو گواہوں میں، تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔“

    بلاشبہ اللہ تعالیٰ، مردوں اور عورتوں کے مالک و خالق ہیں اور وہ ان کی ظاہر و پوشیدہ صلاحیتوں، عقل و شعور اور حفظ و اتقان کو خوب جانتے ہیں، جب انھوں نے ہی عورت کی گواہی مرد کے مقابلہ میں آدھی قرار دی، تو کسی ایسے انسان کو، جو اللہ تعالیٰ کو خالق و مالک مانتاہو، یا کم از کم اس کی ذات کا قائل ہو، اس حکمِ الٰہی پر اعتراض کا کوئی حق نہیں، ہاں اگر کوئی منکرِ خدا اور دہریہ اس حکمِ الٰہی پر اعتراض کرتا تو ہم اس کا جواب دینے کے مکلف ہوتے۔

    چونکہ قادیانیوں اور ان کے روحانی آباؤاجداد عیسائیوں کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان کا دعویٰ ہے، اس لئے ہم ان سے عرض کرنا چاہیں گے کہ وہ حضرت محمد صلى الله عليه وسلم کی ذات پر اعتراض کرنے کی بجائے براہ راست اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم پر اعتراض کریں اور زندقہ کے شیش محل سے باہر نکل کر سامنے آئیں، تاکہ لوگوں کو بھی معلوم ہو کہ قادیانیوں کا اللہ کی ذات اور قرآن کریم پر کتنا ایمان ہے؟ اور ان کے دعویٴ ایمان و اسلام کی کیا حقیقت ہے؟

    بلا شبہ ہم یقین سے کہتے ہیں کہ قادیانی، زہر کا پیالہ پینا تو گوارا کرلیں گے مگر اس حقیقت کااعتراف نہیں کرسکیں گے۔

    رہی یہ بات کہ عورت کی گواہی مرد کی نسبت آدھی کیوں قرار دی گئی؟ اور اس کی کیاحکمت ومصلحت ہے؟ تو اس سلسلہ میں عرض ہے کہ اس کی حکمت ومصلحت قرآن وحدیث دونوں میں مذکور ہے، چنانچہ قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیت میں صراحت و وضاحت کے ساتھ اس کی حکمت کو بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:

    ” أَن تَضِلَّ إْحْدَاهُمَا فَتُذَكِّرَ إِحْدَاهُمَا الأخْرَى“ (البقرہ:۲۸۲)

    ترجمہ: ”تاکہ اگر بھول جائے ایک ان میں سے تو یاد دلادے اس کو وہ دوسری۔“

    جس سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ خواتین عدالتی چکروں کی متحمل نہیں ہیں، ان کی اصلی وضع گھر گرہستی اور گھریلو ذمہ داریوں کے نبھانے کے لئے ہے، اس لئے عین ممکن ہے کہ جب عورت عدالت اور مجمع عام میں جائے تو گھبرا جائے اور گواہی کا پورا معاملہ یا اس کے کچھ اجزاء اُسے بھول جائیں، اس لئے حکم ہوا کہ اس کے ساتھ دوسری خاتون بطور معاون گواہ رکھی جائے تاکہ اگر وہ بھول جائے تو دوسری اس کو یاد دلادے۔

    ۲- عورتیں عام طور پر مردوں کے مقابلہ میں کمزور ہوتی ہیں، ان کے دماغ میں رطوبت کا مادہ زیادہ ہوتاہے، اس لئے ان سے نسیان بھی زیادہ واقع ہوتا ہے، اور وہ بھول بھی جاتی ہیں، یہ ایک انسانی فطرت ہے، وگرنہ بعض عورتیں بڑی ذہین بھی ہوتی ہیں، اور بعض عورتوں کو اللہ تعالیٰ نے خاص صلاحیت بخشی ہوتی ہے، جس کی وجہ سے وہ بعض اوقات مردوں کے مقابلہ میں زیادہ ذہین بھی ثابت ہوتی ہیں، تاہم عام فطرت اوراکثریت کے اعتبار سے چونکہ عورت کا مزاج ”اعصابی“ ہوتا ہے، اس لئے وہ اکثر بھول جاتی ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کی دماغی کیفیت ہی ایسی بنائی ہے، لہٰذا دوعورتوں کو ایک مرد کے ساتھ رکھا گیا ہے۔

    ۳- عورتوں کے نقصان عقل کی تائید آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے، جو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ایک خطبہ میں فرمایا:

    ”ما رأیت من ناقصات عقل و دین اغلب لذی لب منکن، قالت: یا رسول اللّٰہ وما نقصان العقل والدین؟ قال: اما نقصان العقل فشہادة امرأتین تعدل شہادة رجل، فہذا نقصان العقل، وتمکث اللیالی ما تصلی و تفطر فی رمضان فہذا نقصان الدین“ (صحیح مسلم، ص:6، ج:1)

    ترجمہ: ”میں نے عقل اور دین کے اعتبار سے ناقصات میں سے ایسا کوئی نہیں دیکھا، جو تم میں سے صاحبِ عقل کی عقل کو گم کردے؟ ایک خاتون نے عرض کیا: ہم ناقص عقل و دین کیوں ہیں؟ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ: عورت کے نقصانِ عقل کی وجہ یہ ہے کہ دو عورتوں کی شہادت ایک مرد کے برابر ہے، اور اس کے نقصانِ دین کی وجہ یہ ہے کہ وہ (مہینہ کے) کچھ دنوں اور راتوں میں نماز نہیں پڑھتی اور رمضان میں روزہ نہیں رکھتی۔“

    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دو عورتوں کی شہادت کا ایک مرد کے برابر ہونا توحکم الٰہی ہی ہے، البتہ اس کی حکمت آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے یہ ارشاد فرمائی کہ یہ ان کے نقصانِ عقل کی بناء پر ہے، دیکھا جائے تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے یہ وجہ اپنی طرف سے ارشاد نہیں فرمائی بلکہ دراصل یہ قرآن کریم کی آیت: ”ان تضل احداہما فتذکر احداہما الاخری“ کی تفسیر و تشریح ہے۔

    لہٰذا جو لوگ عورت کی گواہی کے مسئلہ پر یہ اشکال کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عورت کی گواہی مرد کے مقابلہ میں نصف کیوں ہے؟ دیکھا جائے تو وہ لوگ حکم الٰہی کا مذاق اڑاتے ہیں۔

    شاید کچھ لوگوں کو یہ خیال ہو کہ خواتین ایسی نہیں ہوتیں، بلکہ ان کو سب باتیں خوب یاد رہتی ہیں، تو وہ گواہی کے معاملہ میں کیوں بھول سکتی ہیں؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ تجربہ سے ثابت ہے کہ عموماً خواتین باتونی تو ہوتی ہیں، مگر وہ ادھر ادھر کی باتیں خوب یاد رکھتی ہیں، لیکن اصل بات اور معاملہ کی جزئیات بھول جاتی ہیں۔

    ۴- حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی -رحمه الله- بانی دارالعلوم دیوبند نے عورت کی آدھی گواہی کے سلسلہ میں ایک عجیب و غریب نقطہ ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ وہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:

    ”عجب نہیں کہ مجموعہ بنی آدم میں اوّل سے لے کر آخر تک دوتہائی عورتیں اور ایک تہائی مرد ہوں اور حکم ازلی نے باعتبار جہت تقابل کے بھی وہی حساب ”للذکر مثل حظ الانثیین“ بٹھاکر ایک مرد کو دو عورتوں کے مقابل رکھا ہو۔“ (تفسیر معارف القرآن مولانا محمد ادریس کاندھلوی -رحمه الله- ، ص:۴۲۵، ج:۱)

    چنانچہ اگر اوّل سے آخر تک کی مردوں اور عورتوں کی تعداد کا کسی کو استحضار نہ بھی ہوتو دنیا بھر میں موجودہ عورتوں کی تعداد سے اس کی تصدیق ہوسکتی ہے،اس لئے کہ آج دنیا بھر میں عورتیں مردوں کی نسبت بہت ہی زیادہ ہیں، اور غالباً اسی تناسب سے اللہ تعالیٰ نے دو عورتوں کی گواہی اور وراثت کو ایک مرد کے برابر رکھا ہے۔

    ان تصریحات و تفصیلات کی روشنی میں واضح ہوجانا چاہئے کہ مرد کی نسبت عورت کی آدھی گواہی کا معاملہ کسی مسلمان کا خانہ زاد یا آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا وضع فرمودہ نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، اب جس کو اس پر اعتراض کرنا ہو، وہ ذاتِ الٰہی سے ٹکرلے اور اللہ تعالیٰ سے خود ہی نمٹے۔

  5. #5
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    سوال: ۸- ”والدین کی جائیداد سے عورت کو مرد کے مقابلے میں آدھا حصہ دینے کا کیوں حکم دیا؟ کیا عورت مرد کے مقابلے میں کمتر ہے؟“ جواب: یہاں بھی یہ امر پیش نظر رہنا چاہئے کہ میراث میں مرد کے مقابلہ میں عورت کو آدھا حصہ دینے کا حکم آنحضور صلى الله عليه وسلم نے نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:

    ”للذکر مثل حظ الانثیین“ (سورئہ نساء: ۱۱)

    ترجمہ: ”دو عورتوں کا حصہ ایک مرد کے برابر ہے۔“

    بہرحال قادیانیوں کو تقسیم میراث کے سلسلہ میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی مخالفت اورانگریزوں کی حمایت میں مردوزن کی مساوات کا راگ نہیں الاپنا چاہئے، بلکہ انہیں اللہ تعالیٰ کی حق و انصاف پر مبنی تقسیم پر سکوت اختیار کرنا چاہئے۔ یہ تو شاید قادیانیوں کو بھی معلوم ہوگا کہ انگریزی دورِ اقتدار میں خود اسی متحدہ ہندوستان میں یہ قانون رائج و نافذ تھا کہ خواتین حقِ وراثت سے محروم تھیں، اور وراثت کی جائیداد اور زمین وغیرہ ان کے نام منتقل نہیں ہوسکتی تھی، دور کیوں جائیے! اسی انگریزی قانون کی وجہ سے میرے حقیقی دادا کی جائیداد سے میری پھوپھیاں تک محروم رہیں... جنہیں ہندوستان کی آزادی اور قیامِ پاکستان کے بعد ان کا شرعی حصہ دیا جاسکا۔

    کیا ہم پوچھ سکتے ہیں کہ قادیانیوں اور ان کے سرپرست عیسائیوں کو کبھی اس ظالمانہ قانون کے خلاف آواز اٹھانے کی بھی توفیق ہوئی؟ اگر نہیں اور یقینا نہیں! تو انہیں اسلام کے عدل و انصاف پر مبنی قانون وراثت پر اعتراض کرنے کا کیا حق ہے؟

    رہی یہ بات کہ اسلام نے خواتین کو وراثت میں مردوں کے مقابلہ میں آدھا حصہ کیوں دیا؟ اوراس کی کیا حکمت ہے؟ اس سلسلہ میں عرض ہے کہ:

    ۱- مرد، عورتوں پر حاکم ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے، چنانچہ اسی فضیلت کی وجہ سے مردوں کا حصہ دوہرا اور خواتین کا حصہ اکہرا ہے۔

    ۲- اسی کے ساتھ مردوں کے دوہرے حصہ کی وجہ یہ بھی ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مرد، عورتوں پر خرچ کرتے ہیں، جبکہ عورتیں، مردوں پر خرچ نہیں کرتیں، اس لئے مردوں کو دوہرا دیاگیا، چنانچہ ارشاد الٰہی ہے:

    ” الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء بِمَا فَضَّلَ اللّهُ بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَبِمَا أَنفَقُواْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ “ (النساء: 34)

    ترجمہ: ”مرد حاکم ہیں عورتوں پر، اس واسطے کہ بڑائی دی اللہ نے ایک کو ایک پر اوراس واسطے کہ خرچ کئے انھوں نے اپنے مال۔“

    یعنی مرد، عورتوں پر حاکم ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اوراس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر ان کی ضرورتوں کے لئے مال خرچ کرتے ہیں۔

    گویا مردوں کو دوہرا حصہ ملنے کی وجہ یہ ہے کہ مرد کے ذمہ خرچہ نفقہ ہے اور عورت کے ذمہ کسی قسم کا کوئی نفقہ خرچہ نہیں۔

    اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو عورت کو جو کچھ ملتا ہے وہ صرف اور صرف اس کا ذاتی جیب خرچ ہے اور اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہے، بلکہ اگر غور کیا جائے تو عورت کو مرد کی نسبت کہیں زیادہ ملتا ہے، اس لئے کہ خاتون جب تک نابالغ ہو، اس کا نفقہ خرچہ باپ، دادا، چچا ، بھائی وغیرہ یا ان میں سے کوئی نہ ہو تو بیت المال کے ذمہ ہے، جب وہ بالغ ہوجائے اوراس کا نکاح ہوجائے، تواس کے تمام اخراجات شوہر کے ذمہ ہوجاتے ہیں، نکاح کے موقع پر اسے جو حق مہر ملتا ہے، وہ بھی خالص اس کا جیب خرچ ہوتا ہے، اسی طرح باپ کی وفات پر اسے اپنے بھائیوں کی نسبت جو نصف جائیداد ملتی ہے وہ بھی اس کی ذاتی ملکیت اور جیب خرچ ہوگی، اگر اولاد ہوجائے اور شوہر کا انتقال ہوجائے تو شوہر کی جائیداد سے ملنے والا آٹھواں حصہ بھی اس کی ذاتی ملکیت اور جیب خرچ ہی ہوگا، اسی طرح اگر کل کلاں بیٹے یا بیٹی کا انتقال ہوجائے تو ان کی جائیداد میں سے ملنے والا چھٹا حصہ بھی اس کی جیب ہی میں جائے گا، جبکہ اسلام نے عورت کو خرچ کرنے کا کہیں بھی ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، اس کے مقابلہ میں مرد کی ذمہ داریوں اوراخراجات کو دیکھا جائے تو وہ ہر جگہ خرچ ہی خرچ کرتا ہوا نظرآتا ہے، مثلاً: نکاح کے وقت حق مہر کی ادائیگی، بیوی کا نان نفقہ، بوڑھے والدین، چھوٹی اولاد، چھوٹے اور یتیم بہن بھائیوں، سب کا نفقہ خرچہ اس کے ذمہ اور اس کے فرائض میں شامل ہے، اب عورت کے مقابلہ میں مرد کی میراث کے دوہرے حصہ پر اعتراض کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ نفع میں عورت ہے یا مرد؟ عورت ومرد کی مذکورہ بالا ذمہ داریوں کے اعتبار سے بتلایا جائے کہ کس کا بینک بیلنس بڑھے گا؟ اور کون خرچ ہی خرچ کرتا رہے گا؟ کیا اب بھی اس تقسیم الٰہی پر اعتراض کرنے کا کسی کو حق رہ جاتا ہے؟

  6. #6
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    قادیانیت کا مکروہ چہرہ!

    کینیڈا سے قادیانیوں کے پندرہ سوالات اور ان کا جواب




    سوال: ۹- ”حضرت محمد نے خود نوشادیاں کیں اور باقی مسلمانوں کو چار پر قناعت کرنے کا حکم دیا؟ اس میں کیا مصلحت تھی؟“

    جواب: آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے تعدد ازواج کے مسئلہ پر عموماً یورپ کے مستشرقین اپنے تعصب، نادانی اور جہل مرکب کی وجہ سے اعتراض کیا کرتے ہیں، بلاشبہ قادیانیوں نے بھی ان سے مرعوب ہوکر ان کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان کے اعتراض کو اپنے الفاظ میں نقل کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے،اگر قادیانیوں کااسلام اور پیغمبراسلام سے ذرہ بھر عقیدت کا تعلق ہوتا تو وہ ایسی دریدہ دہنی نہ کرتے، کیونکہ جس کو کسی سے محبت و عقیدت ہوتی ہے، اس کے بارہ میں وہ کسی اعتراض کے سننے کا روادار نہیں ہوتا، یہی وجہ ہے کہ جب قادیانیوں کے سامنے مرزا غلام احمد قادیانی کے اخلاق سوز کردار پر بات کی جائے تو وہ اس کے سننے کے روادار نہیں ہوتے اوراگر بالفرض ان کومرزا جی کی کتب سے ایسے حقائق کے حوالے دکھائے جائیں تو وہ یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ حوالہ چیک کرنے کے بعد بات کریں گے۔

    بہرحال قادیانیوں کے اشکال کہ: آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے لئے چار سے زائد شادیاں اور نکاح کیونکر جائز تھے؟ کے سلسلہ میں عرض ہے کہ:

    الف: آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اپنی سطح پر رکھ کر نہیں سوچنا چاہئے کیونکہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو اللہ تعالیٰ نے بہت سے امتیازی اوصاف و خصوصیات سے نوازا تھا، اگر آج کفار و مستشرقین کو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی شادیوں پر اعتراض ہے، تو ان کے آباؤاجداد اور مشرکین مکہ کو آپ صلى الله عليه وسلم کی بشریت، نبوت، معراج اور غیرمعمولی کمالات پر بھی اعتراض تھا، لہٰذا ہمارے خیال میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی شادیوں پر اعتراض کرنے والے بھی دراصل آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات، صفات اورکمالات کے منکر ہیں، مگر براہ راست اس کا اظہار کرنے کی بجائے یورپی مستشرقین کی زبان میں عقلی احتمالات پیش کرکے اپنی معصومیت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں۔

    ب: جہاں تک آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی چار سے زائد شادیوں کے جواز کا تعلق ہے، اس سلسلہ میں ہمارے شیخ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید -رحمه الله- نے نہایت عمدہ جواب لکھا ہے اور ممکنہ اشکالات کو خوبصورتی سے حل فرمایاہے، لہٰذا اس عنوان پر اپنی طرف سے کچھ لکھنے کی بجائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حضرت شہید -رحمه الله- ہی کا جواب نقل کردیا جائے، جو درج ذیل ہے:

    ”الغرض نکاح کے معاملہ میں بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی بہت سی خصوصیات تھیں اور بیک وقت چار سے زائد بیویوں کا جمع کرنا بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی انہی خصوصیات میں شامل ہے، جس کی تصریح خود قرآن مجید میں موجود ہے۔

    حافظ سیوطی -رحمه الله- ”خصائص کبریٰ“ میں لکھتے ہیں کہ: ”شریعت میں غلام کو صرف دو شادیوں کی اجازت ہے اوراس کے مقابلے میں آزاد آدمی کو چار شادیوں کی اجازت ہے، جب آزاد کو بمقابلہ غلام کے زیادہ شادیوں کی اجازت ہے، تو پھر آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو عام افرادِ امت سے زیادہ شادیوں کی کیوں اجازت نہ ہوتی۔“

    متعدد انبیاء کرام علیہم السلام ایسے ہوئے ہیں جن کی چار سے زیادہ شادیاں تھیں، چنانچہ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ان کی سوبیویاں تھیں اور صحیح بخاری (ص:۳۹۵، ج:۱) میں ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی سو یا ننانوے بیویاں تھیں۔ بعض روایات میں کم و بیش تعداد بھی آئی ہے۔ فتح الباری میں حافظ ابن حجر -رحمه الله- نے ان روایات میں تطبیق کی ہے اور وہب بن منبہ کا قول نقل کیاہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے یہاں تین سو بیویاں اور سات سو کنیزیں تھیں۔(فتح الباری ص:۳۶۰)

    بائبل میں اس کے برعکس یہ ذکر کیاگیا ہے کہ : سلیمان –عليه السلام- کی سات سو بیویاں اور تین سو کنیزیں تھیں۔ (۱-سلاطین:۱۱-۳)

    ظاہر ہے کہ یہ حضرات ان تمام بیویوں کے حقوق ادا کرتے ہوں گے، اس لئے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا نو ازواج مطہرات کے حقوق ادا کرنا ذرا بھی محل تعجب نہیں۔

    آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خصوصیات کے بارے میں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ متعدد احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو چالیس جنتی مردوں کی طاقت عطا کی گئی تھی اور ہرجنتی کو سو آدمیوں کی طاقت عطا کی جائے گی ... اس حساب سے آنحضرت صلى الله عليه وسلم میں چار ہزار مردوں کی طاقت تھی۔ (فتح الباری ص:۳۷۸)

    جب امت کے ہر مریل سے مریل آدمی کو چار تک شادیاں کرنے کی اجازت ہے تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے لئے، جن میں چارہزار پہلوانوں کی طاقت و دیعت کی گئی تھی، کم از کم سولہ ہزار شادیوں کی اجازت ہونی چاہئے تھی۔

    اس مسئلہ پر ایک دوسرے پہلو سے بھی غور کرنا چاہئے کہ ایک داعی اپنی دعوت مردوں کے حلقہ میں بلاتکلف پھیلاسکتا ہے، لیکن خواتین کے حلقہ میں براہ راست دعوت نہیں پھیلاسکتا، حق تعالیٰ شانہ نے اس کا یہ انتظام فرمایا ہے کہ ہر شخص کو چار بیویاں رکھنے کی اجازت ہے، جو جدید اصطلاح میں اس کی پرائیویٹ سیکریٹری کا کام دے سکیں اور خواتین کے حلقہ میں اس کی دعوت کو پھیلاسکیں... جب ایک امتی کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے یہ انتظام فرمایا ہے، تو آنحضرت صلى الله عليه وسلم جو قیامت تک تمام انسانیت کے نبی اور ہادی ومرشد تھے، قیامت تک پوری انسانیت کی سعادت جن کے قدموں سے وابستہ کردی گئی تھی، اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی عنایت و رحمت سے امت کی خواتین کی اصلاح و تربیت کے لئے خصوصی انتظام فرمایا ہو تواس پر ذرا بھی تعجب نہیں ہونا چاہئے، کیونکہ حکمت و ہدایت کا یہی تقاضا تھا۔

    اسی کے ساتھ یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی کتاب ہدایت تھی، آپ کی جلوت کے افعال و اقوال کونقل کرنے والے توہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین موجود تھے، لیکن آپ کی خلوت و تنہائی کے حالات امہات المومنین کے سوا اور کون نقل کرسکتا تھا؟ حق تعالیٰ شانہ نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی زندگی کے ان خفی اورپوشیدہ گوشوں کو نقل کرنے کے لئے متعدد ازواج مطہرات کا انتظام فرمادیا، جن کی بدولت سیرت طیبہ کے خفی سے خفی گوشے بھی امت کے سامنے آگئے اور آپ صلى الله عليه وسلم کی خلوت و جلوت کی پوری زندگی ایک کھلی کتاب بن گئی، جس کو ہر شخص ہروقت ملاحظہ کرسکتا ہے۔

    اگر غور کیا جائے توکثرتِ ازواج اس لحاظ سے بھی معجزئہ نبوت ہے کہ مختلف مزاج اور مختلف قبائل کی متعدد خواتین آپ صلى الله عليه وسلم کی نجی سے نجی زندگی کا شب و روز مشاہدہ کرتی ہیں اور وہ بیک زبان آپ صلى الله عليه وسلم کے تقدس و طہارت، آپ صلى الله عليه وسلم کی خشیت و تقویٰ، آپ صلى الله عليه وسلم کے خلوص و للہیت اور آپ صلى الله عليه وسلم کے پیغمبرانہ اخلاق و اعمال کی شہادت دیتی ہیں، اگر خدانخواستہ آپ صلى الله عليه وسلم کی نجی زندگی میں کوئی معمولی سا جھول اور کوئی ذرا سی بھی کجی ہوتی تو اتنی کثیر تعداد ازواج مطہرات –رضي الله عنهن- کی موجودگی میں وہ کبھی بھی مخفی نہیں رہ سکتی تھی۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی نجی زندگی کی پاکیزگی کی یہ ایسی شہادت ہے جو بجائے خود دلیل صداقت اور معجزئہ نبوت ہے... یہاں بطور نمونہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ –رضي الله عنها- کا ایک فقرہ نقل کرتا ہوں، جس سے نجی زندگی میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے تقدس و طہارت اور پاکیزگی کا کچھ اندازہ ہوسکے گا، وہ فرماتی ہیں:

    ”میں نے کبھی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کا ستر نہیں دیکھا اور نہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے کبھی میرا ستر دیکھا۔“

    کیا دنیا میں کوئی بیوی اپنے شوہر کے بارے میں یہ شہادت دے سکتی ہے کہ مدة العمر انھوں نے ایک دوسرے کا ستر نہیں دیکھا اور کیا اس اعلیٰ ترین اخلاق اور شرم و حیا کا نبی کی ذات کے سوا کوئی نمونہ مل سکتا ہے؟

    غور کیجئے! کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی نجی زندگی کے ان ”خفی محاسن“ کو ازواج مطہرات –رضي الله عنهن- کے سوا کون نقل کرسکتا ہے؟“ (آپ کے مسائل اور ان کا حل، ص:۲۷۶، ج:۹)

  7. #7
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    سوال: ۱۰- ”شریعت محمدی میں مرد اگر تین بار طلاق کا لفظ ادا کرکے ازدواجی بندھن سے فوری آزادی حاصل کرسکتا ہے تو اسی طرح عورت کیوں نہیں کرسکتی؟“

    جواب: مرد اور عورت کو اللہ تعالیٰ نے مختلف صلاحیتوں سے نوازا ہے، چنانچہ جسمانی ساخت سے لے کر ذہنی اور فکری استعداد تک وہ ایک دوسرے سے مختلف ہیں، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کے جسمانی و نفسیاتی پہلوؤں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے فرائض اور ذمہ داریوں کو اسی حساب سے تقسیم فرمایا ہے، مثلاً خواتین جسمانی اعتبار سے کمزور اور نرم و نازک ہوتی ہیں، جبکہ مرد، ان کے مقابلہ میں سخت جان اور محنت کش ہوتے ہیں، اس لئے شریعت مطہرہ اور اسلام نے خواتین کو بہت سی پُرمشقت ذمہ داریوں سے آزاد رکھا ہے، مثلاً: خواتین پر جمعہ نہیں، جماعت نہیں، جہاد نہیں، امامت نہیں، قیادت و سیادت نہیں، اور کسب معاش نہیں، اسی فطری اورجسمانی ساخت کے اعتبار سے خواتین کو ماہواری آتی ہے، ان کو حمل ٹھہرتا ہے، وہ بچے جنتی ہیں، بچوں کو دودھ پلاتی ہیں، ان کی طبیعت میں مرد کی نسبت زیادہ متاثر ہونے کی استعداد و صلاحیت ہے، ان میں برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے، ان کو غصہ بہت جلدی آتا ہے اور وہ اپنی فطری ضرورت کی تکمیل کی خاطر ماں باپ کا گھر چھوڑ کر اپنے شریک حیات کے ساتھ خوش و خرم زندگی گزارتی ہیں، وغیرہ۔ اس لئے مرد کو، قوام وحاکم اور عورت کو اس کے ماتحت اور دست نگر کا درجہ دیاگیا۔

    اسلام نے ان کی انہیں فطری صلاحیتوں کے باعث ان پر کم سے کم بوجھ ڈالا ہے، چنانچہ اسلام نے خواتین کو کسب معاش کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا، بلکہ اسے گھر کی ملکہ بنایا، گھر کی چاردیواری کے معاملات اس کے سپرد فرمائے اور گھر کی چار دیواری کے باہر تمام امور مرد کے ذمہ قرار دئیے، کسب معاش مرد کی ذمہ داری ہے، خاتون کے نان، نفقہ ، لباس، پوشاک، علاج معالجہ اور سکونت و رہائش کا انتظام بھی مرد کے ذمہ قرار دیا، اور ان دونوں کو ایک دوسرے کے حقوق و ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرماکر فرمایا: ”ولہن مثل الذی علیہن بالمعروف وللرجال علیہن درجة“ (البقرہ: ۲۲۸) یعنی ان خواتین کے حقوق بھی اسی طرح ہیں، جس طرح ان پر مردوں کے حقوق ہیں، معروف طریقہ کے ساتھ، اور مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ کی فضیلت حاصل ہے۔

    اللہ تعالیٰ نے مرد کو ہنگامہٴ دنیا و بازار، تجارت، معاش، قیادت و سیادت اورحکومت و امامت کا ذمہ دار بنایا تو خواتین کو گھر میں رہتے ہوئے انسانیت سازی کا کارخانہ حوالہ کیا، اور فرمایاگیا:

    ”اذا صلت خمسہا و صامت شہرہا واحصنت فرجہا واطاعت بعلہا فلتدخل من ایّ ابواب الجنة شاء ت․“ (مشکوٰة: ۲۸۱)

    یعنی عورت گھر میں رہ کر اپنے اللہ، رسول کے حقوق بجالائے، پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے، اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو جنت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس سے چاہے داخل ہوجائے۔

    مگریورپ کے مستشرقین کو عورت کا یہ اعزاز، عزت و عظمت اور سکون و اطمینان برداشت نہیں، انھوں نے عورت کے حقوق کی پاسداری اور علمبرداری کی آڑ میں اس کو گھر سے نکال کر ہنگامہٴ بازار میں لاکھڑا کیا، انھوں نے اس بے چاری سے اپنی فطری خواہشات تو پوری کیں، مگر اس کے نان نفقہ کی ذمہ داری سے جان چھڑانے کے لئے اسے بھی بازار و کارخانہ کی راہ دکھائی۔

    چنانچہ انھوں نے اپنے انہی مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر عورت کو یہ راہ سجھائی کہ جس طرح ہمارا دل بھرجاتا ہے اور ہم عورت کو ٹھوکر مارکر گھر سے نکال دیتے ہیں، اسی طرح اگر عورت کا دل بھرجائے تو وہ بھی اپنی مرضی سے کسی دوسرے مرد کی راہ دیکھے، دیکھا جائے تو اس ”خیرخواہی“ کے پیچھے بھی عورت دشمنی کا یہ راز ہے کہ کل کلاں عورت کے اس دھتکارے جانے پر ہمیں کوئی مورد الزام نہ ٹھہرائے اور ہم نت نئی خاتون کو اپنی خواہش اورہوس کا نشانہ بناتے پھریں، اس سے اپنی جنسی ضرورت پوری کریں اور اسے چلتا کردیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یورپ و امریکہ میں زنا کو نکاح پر ترجیح دی جاتی ہے، کیونکہ نکاح کرنے کی صورت میں عورت، مرد کی جائیداد کی حق دار ہوجاتی ہے، جبکہ زناکاری کی غرض سے ایک ساتھ رہنے میں مرد پر عورت کے کوئی حقوق نہیں ہوتے اور نہ ہی وہ اس کی جائیداد میں حصہ دار ہوتی ہے، لہٰذا مرد جب چاہے اس کو دھکا دے کر فارغ کرسکتا ہے۔ کیا کبھی عورت کے حقوق کی دہائی دینے والوں نے عورت کے اس بدترین استحصال کے خلاف بھی آواز اٹھائی؟

    جبکہ اسلام نے میاں بیوی کے نکاح کے بندھن کو زندگی بھر کا بندھن قرار دیا ہے، پھر چونکہ اندیشہ تھا کہ عورت اپنی فطری کمزوری، جلد بازی سے اس بندھن کو توڑ کر در،در کی ٹھوکریں نہ کھائے، اس لئے فرمایا کہ اس معاہدئہ نکاح کے فسخ کا حق مرد کے پاس ہی رہنا چاہئے، چنانچہ اس عقد کو باقی رکھنے کے لئے خصوصی ہدایات دی گئیں اور فرمایاگیا کہ اگر خدانخواستہ خواتین کی جانب سے ایسی کسی کمی کوتاہی کا مرحلہ درپیش ہوتو مردوں کو اس عقد کے توڑنے میں جلدبازی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ دونوں جانب کے بڑے بوڑھوں اور جانبین کے اکابر و بزرگوں کو بیچ میں ڈال کر اصلاح کی فکر کرنی چاہئے، چنانچہ فرمایاگیا:

    وَاللاَّتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ فَإِنْ أَطَعْنَكُمْ فَلاَ تَبْغُواْ عَلَيْهِنَّ سَبِيلاً إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيّاً كَبِيراً oوَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُواْ حَكَماً مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَماً مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلاَحاً يُوَفِّقِ اللّهُ بَيْنَهُمَا إِنَّ اللّهَ كَانَ عَلِيماً خَبِيراً o “ [النساء : 34-35]

    ترجمہ: ”اورجن کی بدخوئی کا ڈر ہو تم کو، تو ان کو سمجھاؤ اورجدا کرو سونے میں اور مارو پھر اگر کہا مانیں تمہارا تو مت تلاش کرو ان پر راہ الزام کی، بے شک اللہ ہے سب سے اوپر بڑا، اوراگر تم ڈرو کہ وہ دونوں آپس میں ضد رکھتے ہیں، تو کھڑا کرو ایک منصف مرد والوں میں سے اورایک منصف عورت والوں میں سے، اگر یہ دونوں چاہیں گے کہ صلح کرادیں تو اللہ موافقت کردے گا ان دونوں میں، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔“

    ہاں اگرایسی صورت پیداہوجائے کہ عورت کا اس مرد کے ساتھ گزارا نہ ہوسکے یا شوہر ظلم و تشدد پر اتر آئے تو ایسی صورت میں عورت کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ اسلامی عدالت یا اپنے خاندان کے بزرگوں کے ذریعہ اس ظالم سے گلوخلاصی کراسکتی ہے۔

    اس ساری صورت حال کا جائزہ لیا جائے تواندازہ ہوگا کہ اس میں عورت کی عزت، عصمت اور عظمت کے تحفظ کو یقینی بنانا مقصود ہے، کیونکہ نکاح کے بعد مرد کا تو کچھ نہیں جاتا، البتہ عورت کے لئے کئی قسم کی مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں، مثلاً: خود اس کا اپنا بے سہارا ہوجانا، اس کے بچوں کی پرورش، تعلیم، تربیت، ان کے مستقبل اوراس کے خاندان کی عزت و ناموس کا معاملہ وغیرہ، ایسے بے شمار مسائل، اس بندھن کے ٹوٹنے سے کھڑے ہوسکتے ہیں، اور ان تمام مسائل سے براہِ راست عورت ہی دوچار ہوتی ہے، اس لئے فرمایاگیا کہ عورت کو اس بندھن کے توڑنے کا اختیار نہ دیا جائے، تاکہ وہ ان مشکلات سے بچ جائے۔ بتلایا جائے کہ یہ عورت کی خیرخواہی ہے یا بدخواہی؟

    مگر ناس ہو یورپ اور مستشرقین کی اندھی تقلید کا! کہ اس نے اپنے ذہنی غلاموں کو ایسا متاثر کیا کہ وہ ہر چیز کو ان کی عینک سے دیکھتے ہیں اور اسی زاویہٴ نگاہ سے اسلامی احکام پر نقد و تنقید کے نشتر چلاتے ہیں۔

    بلاشبہ مرزائیوں کا یہ اعتراض بھی میرے خیال میں اپنے آقاؤں کی اندھی تقلید کانتیجہ ہے، ورنہ شاید وہ بھی اپنی خواتین کو حق طلاق دینے کے روادار نہیں ہوں گے، اگر ایسا ہوتاتو ان کی عورتیں کب کی ان پر دو حرف بھیج کر جاچکی ہوتیں۔

    آحر میں ہم خواتین کے حق طلاق کا مطالبہ کرنے والوں سے یہ بھی پوچھنا چاہیں گے کہ اگر آپ ہی کی طرح کا کوئی عقل مند کل کلاں یہ اعتراض کربیٹھے کہ:

    1- اللہ میاں نے مردوں کی داڑھی بنائی ہے تو عورتوں کو اس سے کیوں محروم رکھا؟

    2- عورت اور مرد کے جنسی اعضا مختلف کیوں ہیں؟

    3- ہر دفعہ خواتین ہی بچے کیوں جنتی ہیں؟ مردوں کو اس سے مستثنیٰ کیوں رکھا گیا؟

    4- بچوں کو دودھ پلانے کی ذمہ داری عورت پر کیوں رکھی گئی؟

    5- عورت ہی کو حیض و نفاس کیوں آتا ہے؟

    6- حمل اور وضع حمل کی تکلیف مردوں کو کیوں نہیں دی گئی؟

    تو بتلایا جائے کہ آپ ان سوالوں کا کیا جواب دیں گے؟ یہی ناں کہ یہ مردوں اور خواتین کی جسمانی ساخت اور فطری استعداد کا نتیجہ ہے اوراللہ تعالیٰ نے جس کو جیسی صلاحیتیں عطا فرمائی ہیں، اسی کے مطابق اس کے ساتھ معاملہ فرمایا ہے۔

    بالکل اسی طرح خواتین کے حقِ طلاق کے مطالبہ کا بھی یہی جواب ہے کہ جس ذات نے عورت اورمرد کو پیدا فرمایاہے، اس نے ان کی صلاحیتوں اور جسمانی ساخت کے پیش نظر ہر ایک کے فرائض بھی تقسیم فرمائے ہیں، اس لئے اگر مردوں کے بچے نہ جننے، حمل ، وضع حمل، رضاعت اور ان کو حیض ونفاس نہ آنے پر قادیانیوں اور ان کے روحانی آباؤاجداد یورپی مستشرقین کو کوئی اعتراض نہیں، تو مردوں کے حقِ طلاق پر انہیں کیونکر اعتراض ہے؟





    ===

  8. #8
    iRFAnSajiD's Avatar
    iRFAnSajiD is offline Advance Member
    Last Online
    18th February 2023 @ 06:09 PM
    Join Date
    27 Apr 2007
    Location
    Bhakkar
    Age
    34
    Gender
    Male
    Posts
    5,535
    Threads
    230
    Credits
    244
    Thanked
    13

    Default

    jazak Allah

  9. #9
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    Quote iRFAnSajiD said: View Post
    jazak Allah
    BarakALLAH fi

  10. #10
    Doctor is offline Senior Member+
    Last Online
    13th September 2009 @ 08:57 AM
    Join Date
    26 Sep 2006
    Location
    Alkamuniya
    Age
    52
    Posts
    21,458
    Threads
    1525
    Credits
    1,000
    Thanked
    36

    Default

    Masha ALLAh & Jazak ALLAH janab

  11. #11
    truthfinder is offline Member
    Last Online
    10th December 2007 @ 06:23 PM
    Join Date
    22 Oct 2006
    Location
    in ALLAH's world
    Age
    33
    Posts
    1,427
    Threads
    158
    Credits
    0
    Thanked
    0

    Default

    Quote Doctor said: View Post
    Masha ALLAh & Jazak ALLAH janab
    Bhai pasand karney ka shukria

  12. #12
    Join Date
    10 May 2009
    Location
    Rawalpindi
    Posts
    962
    Threads
    131
    Credits
    841
    Thanked
    19

    Default

    nice information thanks

Page 1 of 2 12 LastLast

Similar Threads

  1. maa ka chehra
    By adeel345 in forum Baat cheet
    Replies: 5
    Last Post: 7th January 2013, 10:17 PM
  2. Qadiyaniyat haqeeqat ya himaqat
    By aziz_865 in forum Khatm-e-Nabuwat
    Replies: 3
    Last Post: 22nd June 2010, 02:50 PM
  3. Dua mein makroh aur Mamno Amoor (3)
    By chulbuli in forum Islam
    Replies: 2
    Last Post: 26th January 2010, 02:52 AM
  4. Dua mein makroh aur Mamno Amoor (2)
    By chulbuli in forum Islam
    Replies: 2
    Last Post: 18th September 2009, 06:51 AM
  5. Dua mein makroh aur Mamno Amoor
    By chulbuli in forum Islam
    Replies: 4
    Last Post: 18th September 2009, 04:37 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •