ڈنمارک ؛ ڈینش نوجوانوں میں دین اسلام کی مقبولیت
Friday, 09.25.2009, 06:54pm (GMT+1)
تحریر؛ نصر ملک۔ کوپن ہیگن
ڈنمارک میں اسلام قبول کرنے والوں میں جہاں کبھی وہ ڈینش عورتیں پیش پیش ہوتی تھیں جو کسی مسلمان تارک وطن سے شادی کر لیتی تھیں وہاں آج اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہو جانے والے ڈینشوں میں چودہ سے انیس سال کی عمر والے نوجوانوں کی شرح تناسب سب سے زیادہ ہے
ڈنمارک میں اسلام قبول کرنے والے ڈینشوں کی فی الوقت تعداد چار ہزار ہو چکی ہے ۔جبکہ ڈینشوں میں دین اسلام کی مقبولیت دن بدن بڑھتی جا رہی ہے ۔ ڈینش محققین اور مسلمان امام متفق ہیں کہ مسلمان ڈنمارک میں دوسری بڑی دینی برادری ہے ۔ ڈنمارک میں اسلام قبول کرنے والوں میں جہاں کبھی وہ ڈینش عورتیں پیش پیش ہوتی تھیں جو کسی مسلمان تارک وطن سے شادی کر لیتی تھیں وہاں آج اسلام قبول کرنے اور مسلمان ہو جانے والے ڈینشوں میں چودہ سے انیس سال کی عمر والے نوجوانوں کی شرح تناسب سب سے زیادہ ہے ۔ ڈینش محقیق کے مطابق ‘ ڈنمارک میں دین اسلام ڈینش نوجوانوں میں بہت ہی زیادہ مقبول ہو رہا ہے اور فی الوقت جو ڈینش اسلام قبول کر چکے ہیں ان میں چودہ سے انیس سال کی عمر والے نوجوانوں کی شرح اسی فیصد تک جا پہنچی ہے ۔
اس کے علاوہ ایسے ڈینش بھی کافی تعداد میں ہیں جو تیس سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے پہلے اپنے باپ دادا کے دین یعنی مسیحیت کو چھوڑ کر اسلام قبول خر لیتے اور مسلمان ہو جاتے ہیں ۔ یہ ڈینش نوجوان جب اسلام قبول کر لیتے ہیں تو انہیں اس پر اور اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرنے میں کسی قسم کا کوئی مسئلہ درپیش نہیں آتا ۔ یہ اپنے مسلمان ہونے کا بر ملا اظہار کرتے اور اپنے “ نئے دینی تشخص “ کے خلاف تنقید و نکتہ چینی کا ڈٹ کر مقابلہ بھی کرتے ہیں ۔ یہ مساجد میں جاتے اور باقاعدہ اسلامی دینی عبادات کرتے اور مذہبی اقدار سیکھتے اور قرآن کی تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ “
انسان کی پیدائش اور اس کے ارتقائی امور کے علم کی ماہر ‘ ٹینا ینسن ‘ جنہوں نے ڈنمارک میں اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے کافی تحیقق کی ہے انہوں نے “ ڈنمارک میں مسلمان “ نامی اپنی شائع کردہ کتاب میں لکھا ہے کہ اسلام قبول کرنے والے کم عمر نوجوان ڈینشوں میں بیشتر وہ ہیں جن کے دوستوں کے حلقے میں مسلمان نوجوان زیادہ ہوتے ہیں ۔ یہ ڈینش نوجوان اپنے ہم عمر مسلمان نوجوانوں کے رہن سہن ‘ اور دین سے رغبت اور ان کی معاشری اقدار سے کا فی مرغوب ہوجاتے ہیں اور وہ دین اسلام کو ایک مضبوط روحانی قوت سمجھتے ہیں ۔ جو انہیں سکون مہیا کر سکتی ہے ۔ “ ڈنمارک میں مسلمان “ نامی کتاب کی شریک لکھاری “ تاریخ الادیان “ کی ماہر کیٹ اُوسٹرگورڈ کا کہنا ہے کہ مسیحیت کو چھوڑ کر اسلام قبول کر لینے والے نوجوان ڈینش‘ اپنے آپ کو ایک سچا و حقیقی مسلمان بنانے اور ثابت کرنے کے لیے بڑی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ تمام اسلامی دینی اصولوں اور اقدار کی پاسداری کرتے اور اس بات کو بطور خاص دھیان میں رکھتے ہیں کہ “ حرام کیا ہے اور حلال کیا ہے ۔ “ “
ڈنمارک میں مسلمان “ نامی ڈینش زبان میں شائع کی جانے والی یہ کتاب ‘ اگلے ماہ ‘ اکتوبر میں مارکیٹ میں آ جائے گی ۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ محض دو سال پہلے اسلام قبول کرنے والے ڈینشوں کی تعداد جہاں ڈھائی ہزار کے قریب تھی وہاں آج یہ تعداد چار ہزار تک پہنچ چکی ہے ۔ مسلمانوں کے ایک بڑے معتبر اور معروف امام ‘ عبدلواحد پیٹر سن ‘ جو خود ڈینش النسل اور نئے مسلمان ہیں ‘ ان کا کہنا ہے کہ ڈینش نوجوانوں میں اسلام کے متعلق گہرائی سے جاننے کا رجحان کافی زیادہ بڑھ رہا ہے اور پچھلے سال کم سے کم پچاس ڈینشوں نے اُن کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا ۔ اور انہیں امید ہے کہ سال رواں میں کچھ نہیں تو ایک سو ڈینش لازمی اسلام قبول کر لیں گے ۔
ڈینش اسلام کیوں قبول کرتے ہیں ؟ اس پر “ تاریخ الادیان “ کی ماہر کیٹ اُوسٹرگورڈ کا کہنا ہے کہ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کی ایک اہم اور بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈینش میڈیا میں اسلام کے بارے میں بہت ہی زیادہ کچھ کہا اور پیش کیا جاتا ہے بیشک یہ منفی ہو یا مثبت‘ اس سے لوگوں اور خاص کر نوجوانوں میں یہ تجسس پیدا ہوتا ہے کہ کیوں نہ وہ خود اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کریں اور پھرجب وہ اس کے لیے عملی کوششیں کرتے ہیں تو ان پر ظاہر ہوتا ہے کہ میڈیا میں دین اسلام کے بارے میں جو کچھ منفی طور پر لکھا اور پیش کیا جاتا ہے اس کا تو اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ وہ اس اسلام کے خلاف اس منفی پروپیگنڈہ کی وجوہات کو سمجھنے کی جب کوشش کرتے ہیں تو ان کا ‘ میڈیا پر یقین و اعتماد آہستہ آہستہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ میڈیا کے اس رویے کی حقیقت کو جان جاتے ہیں ۔ اور اس حیققت کے سامنے آجانے پر “ سچائی “ کی تلاش میں سالام کے قریب ہو جاتے اور بالآخر اسے اپنا لیتے ہیں ۔ کیٹ اُوسٹرگورڈ کے مطابق ‘ اسلام قبول کرنے والے کم عمر ڈینش نوجوانوں میں سے کئی ایک ‘ قدرے شدت پسند اسلامی گروپوں مثلاََ حذب التحریر یا اسی طرح کے دوسرے گروپوں میں شامل ہو جاتے ہیں ۔جب کہ بیشتر ڈینش نوجوان مسلمان اعتدال پسند اسلامی حلقوں میں گھل مل جاتے ہیں ۔
ڈنمارک کے پڑوسی ملک سویڈن کے ساحلی شہر مالمو کے ایک کالج سے منسلک ‘ اسلامی امور کی محقق این سوفی روآلڈ کا کہنا ہے کہ یہ صرف ڈنمارک ہی میں ایسا نہیں کہ ڈینش النسل کم عمر نوجوان روز بروز اسلام قبول کر رہے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ پورے مغربی یورپ میں یہی صورت حال ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بر طانیہ ‘ جرمنی ‘ ہالینڈ ‘ اور فرانس میں بھی ڈنمارک جیسی ہی صورت حال ہے اور ان ممالک کے نوجوانوں میں بھی اسلام سے دلچسپی اور اسلام کو بطور دین قبول کرنے کے رجحان و عمل کی وہی وجوہات ہیں جو ڈینش نوجوانوں کو اسلام کے قریب تر لے جاتی ہیں اور وہ اپنا دھرم بدل کر مسلمان ہو جاتے ہیں ۔
اسلامی امور کی محقق این سوفی روآلڈ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک یورپی نوجوانوں کی جانب سے دین اسلام کو قبول کرنے کی سب سی بڑی اور اہم وجہ جو وہ خود سمجھتی ہیں وہ “ محبت و اخوت “ ہے جو انہیں دائرہ اسلام میں داخل ہو کر نصیب ہوتی ہے ۔ کیونکہ ان نئے مسلمانوں کو اسلامی حلقوں میں بہن بھائیوں کی طرح کنبوں کا فرد اور اسلامی برادری کا حصہ سمجھ کر ان کی عزت اور احترام کیا جاتا ہے اور ان سے کسی قسم کا جدا گانہ سلوک روا نہیں رکھا جاتا ۔
_________________
بے شک بہت سے ان میں لادین ہیں۔۔۔ اور وہ مسلمانوں کا دل جلانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔
‘
‘
لیکن ساری انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔
‘
‘
اسی لادینی نے روحانیت کے لیے ایک بہت بڑا گیپ رکھ چھوڑا ہے۔۔۔ جسے بھرنے کے لیے اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔
‘
‘
اللہ جس کو چاہے ہدایت حاصل ہونے کا موقع فراہم کر دے اور دلوں کو نرم کر دے۔ سبحان اللہ
'
جس طرح جسم کو غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی طرح روح کو بھی غذا کی ضرورت ہوتی ہے۔
‘
‘
جسم چونکہ مٹی سے بنایا گیا ہے۔ لہذا اس کی غذا بھی مٹی سے آتی ہے۔
‘
اور روح اللہ کی طرف سے ہے لہذا روح کی غذا بھی اللہ کی طرف سے آتی ہے یعنی دین جیسے دین اسلام
‘
‘
اگر روح کو غذا نہیں ملتی تو روح مر جاتی ہے۔۔۔ یعنی ملین آف ڈالرز ہونے کے باوجود دل میں سکون نہیں ہوتا۔۔۔ یعنی یہ بڑے بڑے نام والے لوگوں کو ہم سمجھتے ہیں کہ بس تم سے ذیادہ کامیاب کوئی نہیں، لیکن وہ خود اندر سے خالی ہوتے ہیں۔
‘
جبھی ہم امیر لوگوں کو تو خود کشی کرتے دیکھا ہے لیکن کیا کبھی کسی نے سنا کہ اتھوپیا میں قحط ذدہ فرد نے خودکشی کی۔
‘
اس کی وجہ روح کی غذا کا فقدان ہے۔ اور یورپ میں یہی عمل ہوا جا رہا ہے۔اور اسلام ایک مکمل متبادل کے طور پر سامنے آ رہا ہے۔
check these please .....
'
video one
'
'
http://www.youtube.com/watch?v=kru6XQ8CT48
'
'
'
میں مانتا ہوں کہ یورپ کے بیشتر باشندے نائن الیون کے بعد اور بھی اسلام کے مخالف ہو گئے ہیں اور مجھے نائن الیون کے واقعہ پر افسوس بھی ہے کہ اس واقعہ سے بہت سے ایسے غیر مسلم مسلمانوں سےدور بھاگ گئے جو کہ شاید اسلام کے بارے میں نیوٹرل تھے لیکن اب یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام ایک تشدد پسند دین ہے۔
‘
‘
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کارٹون بنا کر ان لوگوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کر کے نائن الیون کا بدلہ لینے کی کوشش کی ہے۔ اور اسی طرح کے بے شمار واقعات اور بھی ہیں کہ یہ مسلسل گستاخیاں کرتے چلے جا رہے ہیں۔
یہ ساری تدبیریں کافر ہم مسلمانوں کو ستانے کے لیے کر رہے ہیں۔
‘
‘
لیکن اللہ کی تدبیر سب پر بھاری ہے۔
‘
کیونکہ وہ غیر مسلم جنہیں اسلام سے کبھی کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ وہ بھی متجسس ہو ئے اور اسلام کا مطالعہ شروع کیا کہ آخر یہ دین کس قسم کا دین ہے۔ اور یوں اسلام سے اور اس کی حقیقت سے یہ لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔ اور اسلام کی تشہیر اور اس کے پھیلنے کا ایک ذریعہ بھی یہی واقعات بن رہے ہیں۔
‘
‘
میرے نزدیک اگلے پچاس سال یورپ کے لیے نہایت اہم ہیں۔ اور خاص کر تین علاقوں یعنی برطانیہ، فرانس اور جرمنی میں اسلام تیزی سے مقامی یورپین لوگوں میں پھیل رہا ہے۔ اور جب مسلمان پچیس سے تیس فیصد ہو جائیں گے تو انشاءاللہ یہ اپنا اثر و نفوذ ہر شعبہ زندگی پر ڈالیں گے کیونکہ یہ مسلمانوں کی فطرت ہے کہ اگرچہ دین محض رسم و رواج تک ہی محدود ہو لیکن پھر بھی یہ اپنی بات منوانا جانتے ہیں۔ ابھی صرف برطانیہ میں مسلمان صرف تین سے چار فیصد ہیں لیکن ان کا اثر و نفوذ ہر شعبہ زندگی میں ہو رہا ہے کیونکہ یہاں مسلمان معاشرے میں ایک تبدیلی لا رہے ہیں۔
'
ہم مسلمان اپنے سکول چاہتے ہیں۔ لڑکیوں کے علیحدہ۔ لڑکوں کے علیحدہ۔ اور ان میں عالم یا عالمہ کا کورس بھی کرایا جاتا ہے۔ الحمدللہ، بہت سارے ایسے سکول نہ صرف قائم ہیں بلکہ بہت عمدہ کارکردگی دکھا رہے ہیں۔
'
ہم حلال گوشت چاہتے ہیں۔
'
ہمارا قبرستان علیحدہ سے ہو اور اس میں ہم اسلامی طریقہ سے تدفین کریں۔ یعنی بغیر کسی بکس وغیرہ کے۔ اور الحمدللہ ہم یہ کر رہے ہیں۔
'
ہمارا اپنا اسلامی بینک ہو سود سے پاک اور ہم نے یہ کر لیا ہے۔
'
وغیرہ وغیرہ۔۔
'
'
اس کو کچھ وقت لگے گا لیکن ایک بہت بڑی تبدیلی آئے گی آئندہ پچاس سالوں میں انشاءاللہ
‘
‘
کیا آپ کو معلوم ہے کہ برطانیہ میں سولہ سال سے کم عمر کے ہر چار جوانوں میں سے ایک مسلمان ہے۔ کیونکہ یورپین لوگ بچے پالنے کو ایک روگ سمجھتے ہیں اور وہ لائف کو انجوائے نہیں کر سکتے۔
‘
Bookmarks