Results 1 to 2 of 2

Thread: قتل ِ انسان قتل ِ انسان

  1. #1
    zaidi_shah9 is offline Junior Member
    Last Online
    11th August 2011 @ 10:13 AM
    Join Date
    02 Mar 2009
    Age
    39
    Posts
    19
    Threads
    8
    Credits
    965
    Thanked
    0

    Default قتل ِ انسان قتل ِ انسان

    قتل
    (۱)
    قتل ِ انسان
    قرآن مجید:
    اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر واجب کر دیا تھا کہ جو شخص کسی کو نہ تو جان کے بدلہ اور نہ ہی زمین میں فساد پھیلانے کی سزا میں (بلکہ ناحق) قتل کر ڈالے گا تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کر ڈالا اور جس نے ایک آدمی کو زندہ کر دیا تو گویا اس نے سب لوگوں کو جلا لیا۔
    اور جس جان کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اسے قتل نہ کرنا، مگر جائز طور پر اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) کا اختیار دیا ہے۔
    قولِ موٴلف : مزید آیات کے لئے ملاحظہ ہو سورہ نساءء/۲۹۔۹۲۔۹۳ مائدہ/۲۸۔۳۲۔ انعام/۱۳۹۔۱۴۰۔ ۱۵۱۔ بنی اسرائیل/۳۱۔۳۳ الکھف/۷۴ فرقان/۶۸۔ تکویر/۹
    حدیث شریف:
    سب سے بڑا سرکش اور نافرمان وہ انسان ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا یا ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔ #۱
    (حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) امالی صدوقؓ ص ۱۲۶
    اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا نافرمان اور اس کے آگے سرکشی کرنے والا شخص وہ ہے جو ایسے شخص کو قتل کرے جس نے اسے قتل نہیں کیا اور ایسے شخص کو مارے جس نے اسے نہیں مارا۔
    (امام جعفر صادق علیہ السلام)
    وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶
    بندہ اس وقت تک دین کی دی ہوئی آزاد فضاؤں میں رہتا ہے جب تک کسی ناحق خون میں اپنے ہاتھ رنگین نہیں کرتا۔
    (حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم)
    کنز ا لعمال حدیث ۳۹۹۰۷
    (امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵ اور اس کتاب میں ”بندہ“ کی بجائے ”موٴمن“ کا لفظ ہے۔ فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۲
    بندہ کا دل ہمیشہ اس وقت تک ترغیب اور خوف کو قبول کرتا رہتا ہے جب تک کہ وہ کسی کا ناحق خون نہیں بہاتا۔ پھر جب وہ کسی کا ناحق بہاتا ہے تو اس کا دل الٹا ہو جاتا ہے اور گناہ کی وجہ سے اس کی رنگت ایسی سیاہ ہو جاتی ہے جیسے کالی تارکول ہوتی ہے، اس کے بعد وہ نہ تو نیکی کو نیکی جانتا ہے اور نہ ہی برائی کو برائی۔
    (حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کنزل العمال حدیث ۳۹۹۵۱
    قیامت کے دن سب سے پہلے جس مقدمہ کا فیصلہ ہو گا وہ خون کا مقدمہ ہو گا۔ ۲#
    (حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۸۸۷، الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۲۔ اسے بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن ماجہ نے بھی روایت کیا ہے۔
    اللہ تعالیٰ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا فیصلہ فرمائے گا وہ خون کا فیصلہ ہو گا۔ چنانچہ فرزندان آدمؑ (ہابیل و قابیل) کو اللہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اللہ تعالیٰ ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔ پھر ان لوگوں کو پیش کیا جائے گا جو ان کے زمانہ سے قریب تر ہوں گے۔ اس سلسلہ میں کوئی شخص باقی نہیں بچے گا۔ پھر اس کے بعد دوسرے لوگ پیش ہوں گے، ہر مقتول اپنے قاتل کے ہمراہ ہو گا، اس کا چہرہ خون سے رنگین ہو گا اور بارگاہِ رب العزت میں عرض کرے گا: ”خداوندا! اس نے مجھے قتل کیا ”اس پر اللہ تعالیٰ قاتل سے کہے گا ”کیا تو نے اسے قتل کیا تھا؟“ اس وقت وہ کوئی بات نہیں چھپا سکے گا۔
    (حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴
    اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ بن عمران کی طرف وحی فرمائی: ”اے موسیٰ! بنی اسرائیل سے کہہ دو کہ اے بنی اسرائیل! کسی شخص کو ناحق قتل نہ کرو کیونکہ تم میں سے جو شخص کسی کو دنیا میں قتل کرے گا اسے اس کے بدلہ میں ایک لاکھ مرتبہ اسی طرح قتل کیا جائے گا جس طرح اس نے قتل کیا ہو گا۔“
    (حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶
    خون بہانے کے معاملہ میں تمہیں تمہارے دونوں ہاتھوں کا کھلا ہونا مغرور نہ کر دے اس لئے کہ قاتل کے لئے اللہ تعالیٰ
    کونسا ایسا قاتل ہے جسے موت نہیں آئے گی؟
    کی طرف سے ایک ایسا قاتل بھی ہے جس میں اسے کبھی موت نہیں آئے گی۔ لوگوں نے عرض کیا: ”یارسولاللہ! وہ “ فرمایا: ”جہنم“!
    (حضرت رسول اکرم) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۴
    اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنیا کا یکبارگی خاتمہ کر دینا ناحق خون بہائے جانے سے زیادہ آسان ہے۔
    (حضرت رسول اکرم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۳ اسے بیہقی نے بھی روایت کیا ہے۔
    (قیامت کے دن) مقتول اپنے قاتل کا ہاتھ پکڑے ہوئے آئے گا اور رب العزت کے حضور اس حالت میں پیش ہو گا کہ اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا۔ وہ بارگاہ رب العزت میں فریاد کرے گا کہ ”اے پرورگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟“ اللہ تعالیٰ اس سے سوال کرے گا: ”تونے اسے کیوں قتل کیا تھا؟“ وہ جواب دے گا: ”میں نے اسے فلاں شخص کو عزت دینے کے لئے قتل کیا تھا! اسے جواب ملے گا: ”عزت تو اللہ ہی کے لئے ہے!“
    (حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) الترغیب و الترہیب جلد ۳ ص ۲۹۶
    جو شخص بھی ناحق یا برحق قتل کیا جاتا ہے وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں محشور ہو گا کہ اپنے قاتل کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہو گا اور بائیں ہاتھ میں اس کا اپنا سر ہو گا، اس کی رگوں سے خون جاری ہو گا اور وہ کہے گا: ”پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟“ اگر تو اس نے اسے اطاعت خداوندی کے لئے قتل کیا ہو گا تو اسے ثواب ملے گا اور مقتول کو جہنم میں بھیج دیاجائے گا، اگر کسی انسان کو راضی کرنے کے لئے کیا تھا تو مقتول سے کہا جائے گا کہ تو بھی اسے ویسے ہی قتل کر جس طرح اس نے تجھے قتل کیا تھا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کے مطابق عمل فرمائے گا۔
    (حضرت امام محمد باقر علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۵۔ فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۲
    ۲# ملاحظہ ہو ”حساب“ باب جس چیز کا سب سے پہلے حساب ہوگا۔
    ایک شخص دوسرے شخص کا ہاتھ تھامے بارگاہ رب العزت میں پیش ہو گا اور عرض کرے گا: ”پروردگارا! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟“ قاتل جواب دے گا: پروردگارا! اسے میں نے تیری عزت کی خاطر قتل کیا تھا!“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”بے شک عزت میرے ہی لئے ہے!“ پھر ایک اور شخص ایک دوسرے آدمی کا ہاتھ پکڑے
    __________________________________________________ ________
    ۱# ملاحظہ ہو ”اسلحہ“ ۴ ”رسول خدا کی تلوار کا رستہ“


    ہوئے آئے گا اور کہے گا: ”پروردگارا! اس نے مجھے قتل کیا ہے!“ اللہ تعالیٰ قاتل سے پوچھے گا: ”تونے اسے کیوں قتل کیا؟“ قاتل جواب دے گا: ”اس لئے کہ فلاں شخص کوعزت ملے!“ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ”عزت (میرے سوا) کسی اور کے لئے نہیں ہے!“ اس کے بعدوہ گناہوں میں جکڑ دیا جائے گا۔
    (حضرت رسول اکرم) کنزالعمال حدیث ۳۹۹۰۹
    اللہ تعالیٰ نے انسان کے قتل کے قتل کو اس لئے حرام قرار دیا ہے کہ اگر اس کا قتل حلال ہوتا تو مخلوق میں فساد پیدا ہو جاتا، دنیا تباہ ہو جاتی اور سارا نظام بگڑ جاتا۔
    (امام رضا علیہ السلام) وسائل الشیعہ جلد ۱۹ ص ۶
    حمران کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں سوال کیا کہ اس کے کیا معنی ہیں: ”من اجل ذالک۔ تا۔ قتل الناس جمیعاً“ (مائدہ/۳۲)
    ”اور یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو صرف ایک انسان کو قتل کرے گا وہ گویا ساری انسانیت کا قاتل قرار پاتا ہے؟“
    امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اسے جہنم کے ایسے مقام میں رکھا جائے گا جہاں جہنمیوں کے عذاب کی آخری حد ہو گی۔ گویا اگر وہ ساری انسانیت ہی کو قتل کر ڈالے گا تو بھی اسی جگہ ہی اسے عذاب ملے گا۔“ میں نے عرض کیا: ”اگر ایک اور انسان کو قتل کر ڈالے تو پھر؟“ آپؑ نے فرمایا: ”اسے اس کادوگنا عذاب ملے گا“
    فروع کافی جلد ۷ ص ۲۷۱
    قولِ موٴلف: تفسیرالمیزان میں ہے کہ حمران نے جو یہ پوچھا کہ اگر کسی اور شخص کو قتل کر ڈالے، اس اشکال کی طرف اشارہ ہے جو اس سے پہلے بیان ہو چکا ہے کہ آیت مجیدہ ایک انسان کے قتل کی سزا، کئی انسانوں کے قتل کی سزا کے برابر قرار دے رہی ہے اس پر امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اس کا عذاب دوگنا ہو گا“
    ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص یہاں یہ اشکال کرے کہ امام علیہ السلام نے اس برابری سے دستکشی اختیار کر لی ہے، آیت نے جس کا حکم دیا ہے، یعنی آیت تو کہہ رہی ہے کہ”ایک شخص کا قتل کرنا تمام لوگوں کے قتل کے برابر ہے“ لیکن روایت کہہ رہی ہے کہ برابر نہیں ہے! لیکن حقیقت میں یہ اشکال وارد نہیں ہو سکتا کیونکہ ”منزلت کی برابری“ ۔ یعنی ایک شخص کا قتل بمنزلت تمام لوگوں کے قتل کے ہے۔ اس کا تعلق عذاب کی کیفیت سے ہے نہ کہ مقدار کی کیفیت سے۔ لہٰذا واضح ترین الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایک شخص کا قاتل اور تمام لوگوں کا قاتل ہر دو جہنم کے ایک ہی مقام میں ہوں گے، لیکن ایک شخص سے زائد کے قاتل کا عذاب دوگنا ہو گا۔ اسی لئے روایات میں آیا ہے کہ اگر کوئی آدمی تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالے تو بھی اسی جگہ عذاب میں ہو گا۔
    ہماری اس گفتگو کی شاہد وہ روایت ہے جسے عیاشی نے اسی آیت کی تفسیر کے سلسلہ میں حمران کے ذریعہ سے امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے، امام علیہ السلام فرماتے ہیں: ”جہنم میں ایک مقام ایسا ہے جہاں اہلِ جہنم کے عذاب کی شدت اپنی آخری حدوں تک ہوتی ہے اور قاتل کو اسی میں ڈالا جائے گا“ حمران کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: ”اگر وہ دو آدمیوں کو قتل کر ڈالے تو پھر کیا ہو گا؟“ امامؑ نے فرمایا ”کیا تم یہ نہیں جانتے ہو کہ جہنم میں ایک ایسی جگہ بھی ہے جس کا عذاب اس قدر شدید ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی اور جگہ کا عذاب اس سے شدید تر نہیں ہے“ پھر فرمایا: ”اسی جگہ پر اس قاتل کا عذاب اس کے قتل کے حساب سے دوگنا ہوتا جائے گا“ پس امام علیہ السلام کا ”نفی“ اور ”اثبات“ میں جمع کرنا اس توجہ کے علاوہ اور کچھ نہیں جو ہم نے روایات کی طرف دلائی ہے اور وہ یہ کہ برابری اور مساوات عذاب کی مقدار میں نہیں بلکہ اس کی کیفیت میں ہے جس کی طرف لفظ ”منزلت“ اشارہ کر رہا ہے۔ البتہ اختلاف خود عذاب اور اس کی اذیتوں کے بارے میں ہے جن سے قاتل کو دوچار ہونا پڑے گا۔
    ہماری گفتگو کا ایک اور شاہد فی الجملہ وہ روایت ہے جو حنان بن سدیر نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کی ہے۔ امامؑ نے اس آیت ”من قتل نفسافکا نما قتل الناس جمیعاً“ کے ضمن میں ارشاد فرمایا: ”جہنم میں ایک گہری وادی ہے کہ اگر کوئی شخص تمام لوگوں کو قتل کر ڈالے تو اسے اسی وادی میں جھونکا جائے گا اور اگر کوئی ایک شخص کو مار ڈالے تو بھی اسے وہیں ڈالا جائے گا“

  2. #2
    irfan72's Avatar
    irfan72 is offline Senior Member+
    Last Online
    10th February 2020 @ 02:47 PM
    Join Date
    19 Feb 2010
    Location
    Bannu Khyber Pakhtunkhwa
    Gender
    Male
    Posts
    1,493
    Threads
    101
    Credits
    816
    Thanked
    200

    Default

    jazakallah

Similar Threads

  1. آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں ملا
    By nizamuddin a in forum Design Poetry
    Replies: 9
    Last Post: 21st April 2021, 10:15 PM
  2. Replies: 8
    Last Post: 28th August 2015, 03:05 PM
  3. طلسمِ حسنِ سخن سے شجر بناتا ہے
    By Zaara in forum Urdu Adab & Shayeri
    Replies: 7
    Last Post: 29th December 2013, 09:50 PM
  4. حقانیتِ اسلام
    By imdadullah in forum E-Books
    Replies: 7
    Last Post: 17th October 2013, 04:01 PM
  5. Qatelan-e-Hussain Ka Anjaam قاتلانِ حسین کا انجام
    By Doctor in forum Islamic History aur Waqiat
    Replies: 39
    Last Post: 22nd July 2008, 04:08 PM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •