ترتیب قرآن !!!
یہ تو واضح ہے کہ قرآن کریم کی سورتوں اور سورتوں کی آیات کی موجودہ ترتیب وہ نہیں جس ترتیب سے ان کا نزول ہوا تھا ، پھر اس موجودہ ترتیب کا ماخذ کیا ہے ؟ اور کس نے یہ ترتیب دی ہے ؟ اکثر عیسائی مستشرقین نے اس پر بڑی لے دے کی ہے اور یہ ثابت کرنے کے لیے بڑے جتن کیے ہیں کہ موجودہ ترتیب زمانہ نبوت میں نہیں دی گئی بلکہ اس کے بعد صحابہ رضی اللہ تعالٰی علیہم اجمعین نے اس کو یوں مرتّب کیا آئیے حقائق کی روشنی میں ان کے اس مفروضہ کا جائزہ لیں ۔
ہمارا یہ دعوٰی ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالٰی کے ارشاد کے مطابق قرآن کی سورتوں اور سورتوں کی آیتوں کو مرتّب فرمایا اور یہ موجودہ ترتیب وہی ترتیب ہے ، اس کے لیے متعدّد دلائل ہیں جن میں سے چند ایک اپنے دعوٰی کے اثبات کے لیے ہدیہ ناظرین ہیں :-
1۔
اللہ تعالٰی فرماتے ہیں ان علینا جمعہ وقرآنہ ہ فاذا قراناہ فاتبع قرآنہ ( 75: 17،18) یعنی قرآن کو جمع کرنا اور اسے پڑھنا ہمارے ذمّہ ہے اور جب ہم پڑھ چکیں تو آپ اس پڑھے ہوئے کی اتباع کریں ، اب آپ سوچیں کہ کیا ترتیب کے بغیر جمع قرآن کا تصوّر کیا جاسکتا ہے ، کیا کسی مخصوص ترتیب کے بغیر اس کی تلاوت ممکن ہے ؟ جب جمع کرنے اور پڑھنے کے لئے اس کا مرتب ہونا ضروری ہے تو معلوم ہوا کہ جس ذات پاک کے ذمہ اس کا جمع کرنا اور پڑھنا ہے اسی نے اس کو مرتّب فرمایا ہے ۔
2۔
تاریخی لحاظ سے آپ سوچئے عہد رسالت صل اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم میں صحابہ کرام کو قرآن کریم یاد تھا ، بعض کو کچھ سورتیں اور بعض کو سارا قرآن صحابہ کرام نماز میں اور اس کے باہر اس کی تلاوت کیا کرتے ، حضور رحمت عالمیان صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم خود بھی نماز تہجّد میں دوسری نمازوں میں ، عام خطبات میں کثرت سے قرآن کریم کی قرآءت فرماتے اور حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآءت وترتیب اور صحابہ کی قرآت وترتیب میں قطعاً سرمُو فرق نہیں ہوا کرتا تھا ۔ یہ وہ امور ہیں جن سے کوئی بھی انکار کرنے کی جرآت نہیں کرسکتا ، اب آپ خود فیصلہ کیجئے کہ اگر نبی کریم علیہ الصلواۃ والتسلیم نے اسے حکم الہٰی سے مرتّب نہیں فرمادیا تھا تو صحابہ کیسے اس کو حفظ کرسکتے تھے ، کیسے اس کی تلاوت ان کے لئے ممکن تھی ، اور اگر حضور کی مقررہ ترتیب نہیں تھی تو ہر ایک کی قرآت دوسرے سے مختلف ہونی چاہئے تھی حالانکہ ایسا نہیں تھا ، تو ثابت ہوا کہ قرآن کریم عہد رسالت میں مکمل طور پر مرتّب فرمادیا گیا تھا اور تمام صحابہ اسی کی پیروی اور پابندی کیا کرتے تھے ، اس لئے عیسائی متعصّبین کا یہ شور و غوغا قطعاً کوئی وزن نہیں رکھتا ، وللہ الحجۃ البالغہ۔
Bookmarks