انگریزی زبان میں افسانے کو ’’شارٹ سٹوری‘‘یعنی مختصر کہانی کہا جاتاہے، لیکن اس کے باوجود اس کی لمبائی کی کوئی خاص حد نہیں ہے۔ بعض کہانیاں تودرجنوں صفحوں پر محیط ہوتی ہیں، تاہم انہیں بھی شارٹ سٹوری کہاجاتاہے، لانگ سٹوری نہیں۔



لیکن مختصر کہانی کتنی مختصر ہو سکتی ہے؟پانچ سو الفاظ پر مشتمل؟ سو الفاظ؟ پچاس الفاظ؟ 1987ء میں نیویارک ٹائمز اخبار نے ایک مقابلے کا اعلان کیا، جو بعد میں ’55 فکشن‘کے نام سے مشہور ہوگیا۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، اس مقابلے میں دنیا بھر سے مصنفین کو پچپن الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ منتخب کہانیوں کو اخبار میں شائع کیاجاتاہے۔ سالِ رواں میں اخبار کو سات سو کہانیاں موصول ہوئیں جن میں سے سولہ اخبار کے معیار پر پوری اتر سکیں۔ اس اخبار میں شائع ہونے والی مختصر کہانیوں کا انتخاب ’دنیا کی مختصر ترین کہانیاں‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔



لیکن ایسے ادیب بھی ہیں جنہیں پچپن الفاظ بھی بہت زیادہ لگتے ہیں۔ کم از کم ایک مصنف نے تومختصر کہانی کی آخری حد پار کر ڈالی ہے اور اس سے سبقت لے جانا ناممکن ہے۔ کیونکہ اس کہانی میں الفاظ کی تعداد صفر ہے۔



کیا یہ ممکن ہے کہ کہانی میں ایک لفظ بھی نہ ہو؟ ملاحظہ ہو:



عنوان:

’’ تیسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی تاریخ‘‘



کہانی:

دو سادہ صفحے



سوچیے تو کیا نہیں ہے اس کہانی میں۔طنز، سبق آموزی اور تاثیر کوٹ کوٹ کر بھرے ہیں۔



ظاہر ہے کہ اختصار میں دنیا کا کوئی ادیب اس کہانی سے سبقت نہیں لے جا سکتا۔ تاہم اس سے کچھ لمبی کہانیوں کی ایک طویل فہرست موجود ہے۔حتیٰ کہ اس صنف میں ڈراؤنی کہانیاں بھی لکھی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ کہانی دیکھئے:



’’دنیا کا آخری آدمی کمرے میں بیٹھا تھا۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔‘‘



مختصر ترین کہانیوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کے مشہور رسالے ’وائرڈ میگزین‘نے اپنے نومبر 2006ءکے شمارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیاہے۔ رسالے کے مدیروں نے امریکہ کے چوٹی کے ادیبوں کوصرف چھ الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی۔ رسالے کے پاس بطورِ رول ماڈل نوبل انعام یافتہ امریکی ادیب ارنسٹ ہیمنگوے کی مختصر کہانی موجود تھی:



’’بچگانہ جوتے،برائے فروخت ۔کبھی استعمال نہیں ہوئے۔‘‘



انگریزی میں یہ کہانی صرف چھ الفاظ پر مشتمل ہے، جن میں ہیمنگوے نے پوری داستان سمو دی ہے۔ جوتے کون بیچ رہا ہے؟ شاید کسی بچے کے والدین۔ شاید بچہ پیدا ہوتے ہی مر گیا تھا یا مرا ہوا ہی پیدا ہوا تھا۔ والدین نے بڑے ارمانوں اور چاؤ سے اس کے لیے جوتے خریدے ہوں گے۔ لیکن اب وہ اپنے مالی حالات کے ہاتھوں اتنے مجبور ہو گئے ہیں کہ مرے ہوئے بچے کے جوتے بیچنے کی نوبت آگئی ہے۔ غربت کا عفریت ، معاشی ناہمواری، وسائل کی نامناسب تقسیم، قدرت کے سامنے انسان کی بے بسی، ذاتی المیے کے باوجود زندگی کی گاڑی کا چلتے رہنا۔ سب کچھ اس کہانی میں موجود ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہیمنگوے نے اس کہانی کو اپنے کیریر کی اعلیٰ ترین کہانی قرار دیا ہے۔



وائرڈ میگزین کی درخواست پر امریکہ کے درجنوں صفِ اول کے مصنفین اپنی اپنی کہانیاں بھیجیں۔ مصنفین کی اکثریت کا تعلق سائنس فکشن ، فینٹسی اور دہشتناک کہانیاں لکھنے والوں سے تھا۔



کہانیوں کے موضوعات بہت متنوع ہیں۔ باہمی انسانی تعلقات، محبت، سیاست، وغیرہ۔ تاہم بہت سی کہانیوں میں ’ڈس ٹوپیا‘ کا تصور نظر آتا ہے۔ یعنی انسان اور دنیا کے مستقبل سے مایوسی۔ اور یہ کوئی انوکھی بات اس لیے نہیں ہے کہ یہ پچھلے سو برس کے ادب کے مرکزی موضوعات میں سے ایک رہا ہے۔ اوپر دی گئی دنیا کی مختصرترین کہانی کا موضوع بھی یہی ہے۔



وائرڈ میگزین سے شمارے سے چند منتخب کہانیاں نذرِ قارئین ہیں، دیکھیئے کہ ان میں سے کئی کہانیاں اپنے ایجاز، اختصار اور ایمائیت کی بنا پر شاعری کے درجے تک پہنچ گئی ہیں:



مارگریٹ ایٹ وُڈ

’’اس کی حسرت تھی۔ مل گیا۔ لعنت۔‘‘



سٹیفن بیکسٹر

’’میں تمہارا مستقبل ہوں۔مت رو بچے۔‘‘



فرینک ملر

’’میں نے خون آلود ہاتھوں سے کہا، خداحافظ۔‘‘



سٹیون میریٹسکی

’’دن برباد، زندگی برباد۔ ذرامیٹھا بڑھانا۔‘‘



ورنر ونج

’’کتبہ: بے وقوف انسان، زمین سے بھاگ نہیں سکا۔‘‘



بروس سٹرلنگ

’’بہت مہنگا ہے، انسان رہنا۔‘‘



اورسن سکاٹ کارڈ

’’بچے کے خون کا گروپ؟ بالعموم، انسانی‘‘



بین بووا

’’انسانیت کو بچانے کے لیے اسے دوبارہ مرنا پڑا۔‘‘



ہیری ہیریسن

’’مشین مستقبل میں پہنچ گئی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔‘‘



رچرڈ پاورز

’’جھوٹ پکڑنےوالی عینک کی ایجاد ۔ انسانیت منہدم ہو گئی۔‘‘



ہاورڈ چیکن

’’میرا خیال تھا کہ وہ مجھ پر گولی نہیں چلائے گی۔‘‘



سٹیفن ڈونالڈسن

’’اس سے شادی مت کرو، گھر خرید لو۔‘‘



رابرٹ جورڈن

’’آسمان ٹوٹ پڑا۔ تفصیل گیارہ بجے۔‘‘



کین میک لیوڈ

’’کیا اتنا کافی ہے؟ کاہل ادیب نے پوچھا۔‘‘