Thanks Asad
Thanks Asad
[CENTER][SIGPIC][/SIGPIC][/CENTER]
ایک مرید اپنے مرشد سے یہ کہہ کر بغاوت کرتا ہے کہ مرشد کے گھر بجلی کے بلب ہیں اور مریدوں کے پاس مٹی کے دیے بھی نہیں. یعنی کہ پیر مریدوں کو اپنے برابر نہیں رکھتا
مسلمان چاہے جیسا ہو، جہاں* کا بھی ہو اسے سادگی اپنانی چاہیے جبکہ پیر اور مرشد بتوں کی طرح اپنی پوجا کرواتے ہیں
اور جو نذرانہ انہیں مریدوں اور زائرین سے ملتا ہے وہ دراصل سود ہے اور یہ لوگ بھی ہندو مہاجنوں جیسے ہیں
ان کو تو گدی نشینی وراثت میں ملی ہے اور یہ اس کے اہل نہیں ہیں . یعنی کے عقابوں کے نشیمن کووں (زاغ کا مطلب کوا ہے ) کے قبضے میں آ گئے ہیں
Nice Sharing
Thanks For Sharing
نہ تخت و تاج ميں ، نے لشکر و سپاہ ميں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ ميں ہے
صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خليل
يہ نکتہ وہ ہے کہ پوشيدہ لاالہ ميں ہے
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پيدا
يہ سنگ و خشت نہيں ، جو تری نگاہ ميں ہے
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ ميں ہے
خبر ملی ہے خدايان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزر سيل بے پناہ ميں ہے
تلاش اس کی فضاؤں ميں کر نصيب اپنا
جہان تازہ مری آہ صبح گاہ ميں ہے
مرے کدو کو غنيمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے ميں ہے باقی نہ خانقاہ ميں ہے
میں وقت کی قلت کے باعث تشریح نہ کر سکا I am sorry for that
طارق کي دعا
(اندلس کے ميدان جنگ ميں)
يہ غازي ، يہ تيرے پر اسرار بندے
جنھيں تو نے بخشا ہے ذوق خدائي
دو نيم ان کي ٹھوکر سے صحرا و دريا
سمٹ کر پہاڑ ان کي ہيبت سے رائي
دو عالم سے کرتي ہے بيگانہ دل کو
عجب چيز ہے لذت آشنائي
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنيمت نہ کشور کشائي
خياباں ميں ہے منتظر لالہ کب سے
قبا چاہيے اس کو خون عرب سے
کيا تو نے صحرا نشينوں کو يکتا
خبر ميں ، نظر ميں ، اذان سحر ميں
طلب جس کي صديوں سے تھي زندگي کو
وہ سوز اس نے پايا انھي کے جگر ميں
کشاد در دل سمجھتے ہيں اس کو
ہلاکت نہيں موت ان کي نظر ميں
دل مرد مومن ميں پھر زندہ کر دے
وہ بجلي کہ تھي نعرہ لاتذر ، ميں
عزائم کو سينوں ميں بيدار کردے
نگاہ مسلماں کو تلوار کردے!
Sory Friends i was busy in Job
doesn't matter
Nice
بہت عمدہ اور اچھی شیئرنگ کی ہے آپ نے
شکریہ جناب
لينن
( خدا کے حضور ميں)
اے انفس و آفاق ميں پيدا ترے آيات
حق يہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تري ذات
ميں کيسے سمجھتا کہ تو ہے يا کہ نہيں ہے
ہر دم متغير تھے خرد کے نظريات
محرم نہيں فطرت کے سرود ازلي سے
بينائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
آج آنکھ نے ديکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
ميں جس کو سمجھتا تھا کليسا کے خرافات
ہم بند شب و روز ميں جکڑے ہوئے بندے
تو خالق اعصار و نگارندہ آنات!
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکيموں کے مقالات
جب تک ميں جيا خيمہ افلاک کے نيچے
کانٹے کي طرح دل ميں کھٹکتي رہي يہ بات
گفتار کے اسلوب پہ قابو نہيں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خيالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدم خاکي کہ جو ہے زير سماوات؟
مشرق کے خداوند سفيدان فرنگي
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
يورپ ميں بہت روشني علم و ہنر ہے
حق يہ ہے کہ بے چشمہ حيواں ہے يہ ظلمات
رعنائي تعمير ميں ، رونق ميں ، صفا ميں
گرجوں سے کہيں بڑھ کے ہيں بنکوں کي عمارات
ظاہر ميں تجارت ہے ، حقيقت ميں جوا ہے
سود ايک کا لاکھوں کے ليے مرگ مفاجات
يہ علم ، يہ حکمت ، يہ تدبر ، يہ حکومت
پيتے ہيں لہو ، ديتے ہيں تعليم مساوات
بے کاري و عرياني و مے خواري و افلاس
کيا کم ہيں فرنگي مدنيت کے فتوحات
وہ قوم کہ فيضان سماوي سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کي ہے برق و بخارات
ہے دل کے ليے موت مشينوں کي حکومت
احساس مروت کو کچل ديتے ہيں آلات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہيں کہ آخر
تدبير کو تقدير کے شاطر نے کيا مات
ميخانے کي بنياد ميں آيا ہے تزلزل
بيٹھے ہيں اسي فکر ميں پيران خرابات
چہروں پہ جو سرخي نظر آتي ہے سر شام
يا غازہ ہے يا ساغر و مينا کي کرامات
تو قادر و عادل ہے مگر تيرے جہاں ميں
ہيں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمايہ پرستي کا سفينہ؟
دنيا ہے تري منتظر روز مکافات
Bookmarks