پاکستانی فٹبال کیسے پیچھے رہ گیا؟؟
فٹبال کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کا تیار کردہ فٹبال سنہ انیس سو بیاسی سے دو ہزار دو تک استعمال ہوتا رہا لیکن اب مسلسل دوسرے عالمی کپ میں پاکستان کی بجائے دوسرے ممالک میں جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تیار ہونے والا فٹبال استعمال ہو رہا ہے۔
دوسری جانب فٹبال کی عالمی مانگ میں پاکستان کا حصہ جو کبھی اسی سے سو فیصد تھا کم ہوتا ہوتا تقریباً ساٹھ سے پینسٹھ فیصد پر آ گیا ہے۔
پاکستان میں کھیلوں کا تقریباً سارا سامان صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں تیار کیا جاتا ہے۔ کیا وجوہات ہیں کہ پاکستان نےگزشتہ آٹھ سال کے دوران یہ صلاحیت حاصل نہیں کی کہ وہ عالمی مقابلوں میں استعمال ہونے والا فٹبال تیار کر سکے اور عالمی مانگ میں پاکستان کا حصہ تیزی سے کیوں کم ہو رہا ہے؟
’پاکستان سپورٹس گڈز مینوفیکچر اینڈ ایکسپورٹ ایسوسی ایشن‘ کے چیئرمین ضیا الرحمان چوہدری کا کہنا ہے کہ پہلے تمام عالمی مقابلوں میں مصنوعی چمڑے کے ہاتھ سے سلائی کیے ہوئے فٹبال استعمال ہوتے تھے جن میں پاکستان کو مہارت حاصل تھی۔
لیکن دو ہزار دو کے عالمی کپ کے بعد فٹبال کے نگران ادارے فیفا نے کھیلوں کا سامان تیار کرنے والی ایک عالمی کمپنی کی مدد سے فٹبال کی تیاری کی تکنیک کو تبدیل کرنے کا عمل شروع کیا اور دو ہزار چار میں مصنوعی چمڑے سے مشینوں کے ذریعے مولڈڈ فٹبال کی تیاری شروع ہوئی اور یہ ہی وقت تھا جب پاکستان سے فٹبال کی برآمد متاثر ہونا شروع ہوئی۔
انھوں نے کہا کہ ’اس وقت ہمارے پاس جدید سہولیات موجود نہیں تھیں جس کی مدد سے ہم نئے ڈیزائن کا فٹبال تیار کر سکتے، اس کے علاوہ اس کی تیاری میں استعمال ہونے والا مواد بھی ملکی سطح پر دستیاب نہیں تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ دو ہزار چھ میں پہلی بار فٹبال کے عالمی مقابلوں میں پاکستان کی بجائے تھائی لینڈ میں نئی ٹیکنالوجی ’ تھرمو مولڈڈ‘ سے تیار کردہ فٹبال استعمال کیا گیا اور اب دو ہزار دس میں بھی اسی ٹیکنالوجی سے چین میں تیار کردہ فٹبال استعمال کیا جا رہا ہے۔
ضیا الرحمان چوہدری نے بتایا کہ نیا تھرمو مولڈڈ فٹبال تو انتہائی جدید تکنیک سے بنایا جاتا ہے اور اس وقت کم لاگت اور قیمت کی وجہ سے دنیا میں اسی کی زیادہ مانگ ہے۔
انھوں نے بتایا کہ سنہ انیس سو اٹھانوے کے فٹبال مقابلوں کے دوران مختلف عالمی کمپنیوں کی جانب سے تشہیری مہم میں استعمال ہونے والا سو ملین فٹبال کا تقریباً اسی فیصد سے زائد پاکستان نے مہیا کیا تھا۔
انھوں نے بتایا کہ دو ہزار چار میں مشین کے ذریعے تیار کردہ فٹبال کی زیادہ مانگ کی وجہ سے دو ہزار چھ کے عالمی مقابلے میں پاکستان سے برآمد ہونے والے فٹبال کی تعداد آٹھ ملین فٹبال کے قریب رہ گئی اور اس ورلڈ کپ میں پاکستان سے صرف تین سے چار ملین فٹبال برآمد کیا جا سکا ہے۔
اتنی تیزی سے فٹبال کی برآمد کے متاثر ہونے کی سوال پر ضیا الرحمان چوہدری نے کہا کہ ’پاکستان میں روایتی چمڑے سے ہاتھ سے سلائی کردہ فٹبال بنانے پر توجہ مرکوز رہی اور بدلتے رجحانات کی طرف کوئی دھیان نہیں دیا گیا اور ہمیں صرف فٹبال کا جو ڈیزائن فراہم کیا گیا ہم اسے نقل تیار کرتے رہے اور خود سے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے ڈیزائن پر کبھی توجہ نہیں دی۔‘
انھوں نے کہا کہ اگر ہم خود کوئی ڈیزائن اور ٹیکنالوجی تیار کر کے عالمی مقابلوں کو فٹبال مہیا کرنے والے کھیلوں کے اداروں کو پیش کرتے تو اس پر غور کرتے لیکن جب عالمی اداروں نے خود فٹبال کے ڈیزائن کو تبدیل کیا تو ہمارے پاس اس کو بنانے کی صلاحیت نہیں تھی۔
گزشتہ چار سالوں سے چند صنعت کاروں نے مشین کی مدد سے فٹبال بنانے کا عمل شروع کیا لیکن اس کی رفتار کافی سست ہونے کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عالمی مانگ میں اس کا حصہ بہت کم ہے جس کی وجہ سے فٹبال کی صنعت کوبچانے کی فکر لاحق ہو گئی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں فٹبال کی صنعت تقسیم ہند سے پہلے کی موجود ہے لیکن حکومت نے اس صعنت کی جانب کبھی توجہ نہیں دی۔‘
صورتحال یہ ہے کہ ملک میں فٹبال کی صعنت کے فروغ کے لیے ایک بھی ادارہ موجود نہیں ہے، صنعتوں کے فروغ کے لیے کام کرنے والے سرکاری ادارے سمیڈا کی مدد سے آٹھ سال پہلے ایک انسٹیٹیوٹ قائم کرنے کا فیصلہ کیا تھا لیکن تاحال اس کی مشکل سے عمارت ہی تعمیر ہو سکی ہے، دوسرا مشین کے ذریعے فٹبال بنانے میں تربیت یافتہ کاریگروں کی ایک بڑی تعداد میں ضرورت ہے اور جن کی تربیت کے لیے بھی کوئی سرکاری یا نجی ادارہ موجود نہیں ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ روایتی فٹبال کی تیاری سے ہزاروں افراد کا روزگار منسلک ہے اور اگر دنیا میں مشین سے تیار کردہ فٹبال اور مولڈڈ فٹبال کی مانگ اسی طرح قائم رہتی تو ان افراد کے بے روزگار ہونے کا خدشہ ہے جس سے نہ صرف بے روزگاری میں اضافہ ہو گا بلکہ ملک کو قیمتی زرمبادلہ سے بھی ہاتھ دھونا پڑیں گے۔
پاکستان کا بنایا ہوا فٹبال کب دوبارہ عالمی مقابلوں میں استعمال کیا جا سکے گا اس پر ضیا الرحمان چوہدری نے کہا کہ بڑے برانڈ چھوٹی سطح کے عالمی مقابلوں کے میں پاکستان میں تیار ہونے والا فٹبال استعمال کر رہے ہیں اگرچہ جدید ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کوشش کی جا رہی ہے لیکن موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے ابھی یہ کہنا کرنا مشکل ہے کہ پاکستان کب اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکے گا۔
فٹبال تیار کرنے والے ایک صنعت کار شیخ عبدل واحد صندل نے کہا کہ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے دنیا میں فٹبال کی مانگ میں واضح کمی دیکھنے میں آئی دوسرا ملک میں امن و امان، بجلی کے بحران اور مہنگائی کی وجہ سے فٹبال کی صنعت کو کافی نقصان پہنچنا۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایک وقت یہ تھا کہ سیالکوٹ میں روزانہ چالیس سے پچاس غیر ملکی خریدار آیا کرتے تھے لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ یہ تعداد چار سے پانچ تک آ گئی ہے اور اب ہمیں غیر ملکی خریداروں سے ملاقات کے لیے دبئی جانا پڑتا ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ملک میں بجلی کے بحران کی وجہ سے صورتحال خراب تھی لیکن اب گیس کی لوڈشیڈنگ نے پریشانی میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں شیخ عبدل صندل نے بتایا کہ ’گزشتہ ایک سال سے صعنت کاروں نے مشین کے ذریعے فٹبال بنانے کی طرف توجہ دی ہے اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے عالمی مقابلوں میں ہم کم از کم تشہیر کے لیے استعمال ہونے والے فٹبال کی عالمی مانگ پوری کر سکیں گے۔‘
اس بار شیخ عبدل صندل جو جدید ٹیکنالوجی نہ ہونے کی وجہ سے تشہیر میں استعمال ہونے والا ایک فٹبال بھی نہیں بنا سکے کو اب بھی امید ہے کہ اگر ایک نہ ایک دن ہاتھ سے سلائی کیا ہوا فٹبال دوبارہ عالمی مقابلوں میں استعمال ہو گا اور وہ اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لیں گے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں فٹبال کی صنعت کے بدلتے رجحانات کو دیکھتے ہوئے حکومت کو چاہیے کہ فٹبال صنعت پر فوری توجہ دے تاکہ صنعت کاروں کی مدد سے اسے قابل بنایا جا سکے کہ وہ جدید تقاضوں کو پورا کر سکے اوراس سے وابستہ ہزاروں افراد کو بے روزگار ہونے سے بچایا جا سکے۔
BBCURDU
Youtube Links Not Allowed In Signature (ALi.HaiDEr)
Bookmarks