دین اکبری کی تجدید اب فلموں کے ذریعے
---------
کیا امت کو دین اب شعیب منصور اور شاہ رخ خان سے پڑھنا ہوگا؟!
محمد فاران
محمد ارمان مقدم
’وحی ‘ او ر ’ہوائے نفس‘ کا تصادم ابتدائے آفرینش سے ہوتا آیا ہے۔ خیر اور شر کی جنگ محض اتفاق نہیں، باقاعدہ منصوبہ خداوندی ہے۔ باطل کی سرشت ہی یہ نہیں ہے کہ وہ حق کے وجود کو برداشت کر پائے۔ حق اگر اصل شکل میں موجود ہو تو باطل کے لئے کسی ’پیغام اجل‘ سے کم نہیں۔ البتہ باطل کو حق کے غلاف میں پیش کیا جائے تو اس کا ’ عرصہ حیات‘ بڑھانے کے لئے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ باطل کو اگر زندہ رکھنا ہے تو یہ ’تلبیس‘ بہرحال ناگزیر ہے ۔
’گلوبلائزیشن‘ کے موجودہ دور میں اسی تلبیس کا سہارا لیتے ہوئے اسلام کے بنیادی عقائدپر ’وحدت ادیان اور احترام انسانیت ‘ کے خوشنما لیبل کے ساتھ ضرب لگانے کی کوشش جاری ہے ۔ دیگر مذاہب کے معاملے میں تو انہیں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آرہی ، مگرمصیبت یہ ہے کہ اسلام اپنے سوا کسی بھی مذہب سے مداہنت کا روادار نہیں۔ اس کی بنیادی تعلیمات ہی میں کچھ ایسی ’شدت‘ ہے کہ اس پر ایمان رکھتے ہوئے آپ ’کفر‘ کے لئے اپنے دل میں ’نرم گوشہ‘ نہیں رکھ سکتے۔ چنانچہ ’حل‘ یہ نکالا گیا کہ ’اخلاقیات‘ کے نام سے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی جائے، جس کے ذریعے مذاہب کے امتیاز (بلکہ کفر اور اسلام کے امتیاز) کو ختم کیا جا سکے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے اسلام کی حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو جاہلیت کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ خوبصورت الفاظ تو محض دل کو لبھانے کے لئے ہوتے ہیں، مگر پس پردہ ان کا اصل ہدف مسلم خطوں میں ابھرتی ہوئی اسلامی بیداری کو ’احترام مذاہب‘ کے نام پر کچل دینا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ’مذہب‘ کو آپ اپنی انفرادی زندگی تک محدود رکھئے۔ اسے اتنی زحمت نہ دیجئے کہ یہ معاشرہ میں آ کر حق اور باطل میں فرق کرنا شروع کر دے۔ آپ اپنے ’مذہب‘ پر چلتے رہئے اور دوسروں کو ان کے ’مذہب‘ پر چلنے دیجئے۔ کسی کے سر آنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔ ”اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور دوسروں کے عقیدے کو چھیڑو نہیں“ اس سے زیادہ انصاف پر مبنی بات بھلا کیاہو سکتی ہے؟؟!!!
قارئین کو شاید ہوگا کہ پوپ جان پال نے 1997ءمیں بادشاہی مسجدکا دورہ کرتے وقت یہی DOSE دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”مسلمان اور مسیحی دونوں ’خدائے واحد‘ایمان رکھتے ہیں“۔ یہ بات تو وہ خود بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلمانوں کے توحید خالص پر مبنی ’خدائے واحد‘ کے عقیدے کو مسیحی حضرات کے ’توحید فی التثلیث‘ کے من گھڑت عقیدے سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مگر چونکہ ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ لہٰذا ساتھ میں موجود حکمران طبقہ کو طفلانہ تسلی دینے کی خاطر یہ سب کہہ ڈالاگی۔
’ایک میں تین‘ اور ’تین میں ایک‘ کا فلسفہ عام افراد تو چھوڑیئے خو د عیسائیوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے تو یہ حضرات بڑے شاطرانہ انداز میں اس چیستان کو ’متشابہات‘ کا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ’عقیدہ تثلیث‘ کی کوئی متفقہ تشریح آج تک’روح القدس‘ سے رہنمائی پانے کا دعویٰ کرنے والی ’لا خطاکلیسا‘ بھی نہ کر سکی ۔
عصر حاضر کی جاہلیت عیاری میں کہیں زیادہ ہے اوریہ خوب جانتے ہیں معاملہ ہے کہ ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ اسلام کے خلاف جتنے جتن کر لیں ، انجام بہرحال اسلام ہی کے حق میں نکل آتا ہے۔
وَمَكَرُواْ وَمَكَرَ اللّهُ وَاللّهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ ۔
سہل ترین چیز جو روبہ عمل میں لائی جاسکتی تھی، وہ آراءو خواہشات کا پیوندہے جسے اسلام کے ساتھ نتھی کر دیا جاسکے۔ اسلامی احکامات کا ’جدید ایڈیشن یا تفسیر نو ‘ اسی مقصد کا حصہ ہے ، اور اس ’ خدمت‘ کے لئے طاقتور ترین ہتھیار ظاہر ہے کہ ’میڈیا‘ کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ عوام کی ذہن سازی (Brain Washing)کرنی ہو تو اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دین اکبری کی’ سوغات ‘کی تقسیم کا کام اس جاہلی میڈیا نے اپنے سر لے لیا ہے۔ لالی ووڈ ہو یا بالی ووڈ، ایجنڈا دونوں کا ایک ہی ہے ۔ بادشاہ اکبر کے دو کاسہ پردازوں (ملا دو پیازہ اور بیربل) کی طرح لالی ووڈاور بالی ووڈنے اب دین اکبری کے ’مبلغین ‘ کاروپ دھار لیا ہے۔ دونوں کے ’فرائض‘ میں عجیب مماثلت آپ کو نظر آئے گی۔ مگر اسلام کو جدیددور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے چونکہ کچھ’ نئے‘ مفہومات کی ضرورت پڑتی ہے ، لہٰذا اس کا انتظام مخصوص افکارو نظریات کو پروان چڑھا کر کیا جا رہا ہے۔
ایسی ہی ایک کاوش پرمبنی فلم ’خدا کے لئے‘ تقریباً تین سال قبل ریلیز کی گئی تھی۔ اﷲہی جانتا ہے کہ قرآن و حدیث سے ’استدلال‘ کرنے کی زحمت کن کن ’خاصان خدا ‘ سے لی گئی ،مگر یہ حقیقت ہے کہ جن موضوعات کو اس فلم میں زیر بحث لایا گیا ہے وہ وہی ہیں جو جدت پسند طبقات کے ہاں ’اصول دین‘ کی طرح بیان کئے جاتے ہیں۔ مذہبی قیود سے جان خلاصی چاہنے والوں کے لئے یہ ’ چشمہ صافی‘ مہیا کر دیا گیا ہے، اب انہیں ان حضرات کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ فلم کا مختصر سا خاکہ پیش کر دیا جائے تاکہ مسلم نوجوانوں کو دیئے جانے والے اس Slow Poison کی حقیقت سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔
سرمد اور منصور نامی دو بھائی پروفیشنل گائیک تھے۔ ان کا ایک اور ساتھی شیر شاہ جو پہلے انھی کی طرح ایک گائیک تھا کسی مولانا طاہری( جنہیں جہادی تحریک کے رہنما کی حیثیت سے پیش کیا گیاہے)کی تبلیغ سے متاثرہو کر اپنے فن سے توبہ کرلیتا ہے۔ جذبہ خیرخواہی کے تحت وہ اپنے دوست سرمد کی ملاقات بھی مولانا سے کرواتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سرمد بھی تائب ہو جاتا ہے۔ سرمد کی چچا زاد بہن MARY(جو کہ ایک غیر مسلم سے نکاح کی خواہشمند ہوتی ہے) کو زبردستی کسی مسلمان کی زوجیت میں دے دیا جاتا ہے۔ Mary اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کو عدالت میں چیلنج کردیتی ہے۔
اب معاملہ چونکہ ’دین‘ کا آن پڑا ، لہٰذا ضروری تھا کہ کسی ایسے’ صاحب علم‘ سے رہنمائی لی جائے جس سے خواہشات نفس پر بھی آنچ نہ آئے اور ’اسلام‘ کا بھرم بھی رہ سکے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے عدالت میں ایک ’با ریش ‘ مفتی صاحب کو مدعو کیا گیا تاکہ ان کے دلائل جدت پسندی کے لئے ’آب حیات‘ کا کام دے سکیں۔
جدت پسندی کے داعی مفتی صاحب کو ’با ریش ‘ دکھانے میں کیا مصلحت کار فرما تھی ، اس کا جواب آپ کو’عقل سلیم‘ بخوبی دے سکتی ہے!!!
عدالت میں کئے گئے سوال و جواب کی ایک جھلک مندرجہ ذیل سطور میں ملاحظہ فرمائیں:۔
سوال: کیا شرعی نقطہ نظر سے ایک مسلمان لڑکی کا نکاح غیر مذہب میں کیا جاسکتا ہے؟
جواب : اہل کتاب سے تو ہو سکتا ہے مگر نہ ہو تو بہتر ہے۔ وضاحت طلبی پر ارشاد ہوتا ہے کہ ’نا پسندیدہ ‘ ہے۔
بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ”نا پسندیدہ‘ تو شراب بھی ہے، جھوٹ بولنا بھی ہے۔ مگر ہم شراب پینے والے اور جھوٹ بولنے والے کو دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں کر سکتے“۔
کاش کہ موصوف بالبداہت فرما دیتے کہ ہم کفر اور شرک کے باوجود بھی کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کر سکتے توان کی مہربانی ہوتی! ! زبان سے پڑھا گیا ’کلمہ‘ ہر طرح کے کفر کے علی الرغم انسان کو تا حیات ’مسلمان‘ ہی رکھتا ہے !!!
[/COLOR][/FONT][/SIZE][/COLOR][/FONT][/B][/B][/SIZE]
Bookmarks