السلام علیکم ورحمتہ اللہ و بر کاتہ

ہمیں یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ اُردو کو دل سے عزیز اور جان سے قریب رکھنے والے کچھ لوگ جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں، اس بات پر اپنی ناگواری کا اظہار کرتے ہیں کہ اُردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کیوں کہا جارہا ہے۔ یہ لوگ اُردو کو مشترکہ اور گنگا جمنی تہذیب (گو کہ اس کا مفہوم آج تک ہم پر واضح نہ ہوسکا) کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اُردو زبان و ادب کی تاریخ سے بے شمار غیر مسلم اُردو شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں کا نام لے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ اُردو صرف مسلمانوں کی ہی نہیں ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں اور دوسری قوموں کی بھی زبان ہے۔ کبھی کبھی بحث فرقہ وارانہ رنگ بھی اختیار کرلیتی ہے جو اُردو کی اسپرٹ اور مزاج کے ہی خلاف ہے۔ کچھ لوگوں کو مثلاً افسانہ نگار جتیندر بلو کو یہ بھی شکایت ہے کہ ہندوستان میں اردو کا اسلامائزیشن ہو رہا ہے اور وہ بطور ثبوت اردو رسالوں میں حمد، نعت، منقبت کی شمولیت کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر شخص کرتا ہے کہ اردو کو قبول عام، ہر دلعزیز اور عالمی شہرت کی زبان بنانے میں مسلمانوں کے دوش بدوش دوسرے مذاہب کے ماننے والوں نے لائق تحسین اور عظیم کارنامے انجام دیئے اور بلا شبہ آج بھی دے رہے ہیں۔ اس سے کسی کو انکار نہیں اور اس کے لئے مثالیں دینے کی ضرورت نہیں۔ سب کو معلوم ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں نے عہد گزشتہ میں اپنی پرُ خلوص خدمات سے اُردو کو مالا مال نہیں کیا یا آج نہیں کر رہے ہیں۔ سوال صاف، کھلا اور دوٹوک یہ ہے کہ کیا آج کوئی ایسا غیر مسلم ہے جس نے 1901 کی مردم شماری میں یا دوسرے سرکاری کاغذات میں اردو کو بحیثیت مادری زبان لکھوایا ہے۔ یہ سوال ہم نے بار بار اٹھایا لیکن آج تک ایک بھی غیر مسلم ایسا نہیں ملا جو اُردو کو اپنی مادری زبان کہتا ہو۔ یہ تو ہم مانتے ہیں کہ بے شمار ایسے لوگ ہیں جو اردو کو اپنی مادری زبان سے زیادہ محبوب رکھتے ہیں لیکن وہ اسے اپنی مادری زبان نہیں مانتے۔ 1901 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں تقریباً ساڑھے پانچ کروڑ افراد کی مادری زبان اُردو ہے (گوکہ یہ اعداد و شمار غلط ہیں۔ صحیح تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ مردم شماری کرنے والوں کے متعصبانہ رویوں، دیہاتوں میں جاہل عوام کے سامنے پیش کئے جانے والے پرُ فریب منظر ناموں، ہندی اور اردو کو خلط ملط کرنے کی سازشوں سے صحیح صورت سامنے نہیں آپاتی اور بیشتر اردو والوں کی مادری زبان ہندی یا مقامی لکھ دی جاتی ہے۔ لیکن یہ الگ بحث ہے) تو یہ ساڑھے پانچ کروڑ کون لوگ ہیں۔ کیا ان میں غیر مسلم بھی شامل ہیں، اس کا علم ہونا چاہئے۔ ہماری معلومات کے مطابق پورے ہندوستان میں اردو کو اپنی مادری زبان کہنے والا ایک بھی غیر مسلم نہیں ہے۔ اگر کسی کو اس بات سے انکار ہے تو وہ برائے کرم ہمارے دعوے کی تردید کرے اور کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈھ لائے جس نے 1901 کی مردم شماری میں مادری زبان کے کالم میں اردو لکھا ہو اور دوسرے سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں بھی مادری زبان کے کالم میں اردو لکھتا ہو۔ کئی سالوں سے ہم ایسے جیالے کی تلاش کر رہے ہیں لیکن ابھی تک نہیں ملا۔ تو جب وہ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں سارے کے سارے مسلمان ہیں تو پھر اردو کس کی زبان ہوئی اور اگر یہ لوگ اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں تو کسی کو تکلیف کیوں ہوتی ہے... دیکھئے... اُردو سے محبت کرنا، اس زبان میں شعر و شاعری اور افسانہ نگاری کرنا، نام و نمود اور پیسہ کمانا اور لطف اندوز ہونا ایک بات ہے اور اس سے عقیدت رکھنا اور اسے اپنی مادری زبان کہنا، سمجھنا اور عمل کرنا دوسری بات ہے۔ آپ اردو سے محبت کرتے ہیں، اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں، اسے محبوبہ کی طرح ٹوٹ کر چاہتے ہیں، اس کی محفلیں سجاتے ہیں، اس کے پیروں میں گھنگھرو باندھ کر کوٹھے پر نچاتے ہیں، جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تھیوریاں فلوٹ کرتے ہیں لیکن اسے اپنی مادری زبان نہیں سمجھتے... کیوں؟ آخر کیوں...؟ اور ہندوستان کے ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان اسے اپنی مادری زبان سمجھتے ہیں... کیوں؟ آخر کیوں...؟
اس کا جواب بڑا آسان اور سیدھا ہے۔ وہ اس لئے کہ غیر مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے نہیں ہے اور مسلمانوں کی ثقافت، کلچر، سماجی بنت، مذہبی لٹریچر، رسومات، وراثت اور لین دین کا تعلق اردو سے ہے۔ اس لئے غیر مسلم اسے اپنی مادری زبان نہیں کہتے اور ساڑھے پانچ کروڑ مسلمان کہتے ہیں۔ جب یہ ساڑھے پانچ کروڑ لوگ جو اردو کو اپنی مادری زبان کہتے ہیں، سب کے سب مسلمان ہیں تو اردو مسلمانوں کی زبان ہوئی کہ نہیں... اس کے علاوہ تمام سیاسی پارٹیاں اور سرکاریں جب بھی مسلمانوں کے حوالے سے کوئی فلاحی، اصلاحی اور ترقیاتی منصوبہ بناتی ہیں وہ اردو کو اس سے ضرور جوڑ دیتی ہیں۔ آخر ایسا کیوں ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ گزشتہ ساٹھ سالوں میں ہندوستان کی تمام حکومتوں نے شعوری اور غیر شعوری دونوں طریقوں سے اردو کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑ رکھا ہے۔ یہاں تک کہ قومی اردو کونسل کی سرگرمیوں کا جائزہ لینے کے لئے تشکیل کردہ ڈی۔ آر۔ گوئل کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ اردو کونسل ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان سمجھ کر کام کرتی ہے... ایسی صورت میں وہ محبانِ اردو جو اردو کو مشترکہ زبان ہونے کا ڈھنڈورہ پیٹتے ہیں وہ سرکار کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے کہ وہ اردو کو مسلمانوں کے ساتھ کیوں جوڑتی ہے اور ان شہروں اور محلوں میں ہی اردو اسکول کھولنے کی بات کیوں کرتی ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ وہ سرکار سے سوال کیوں نہیں پوچھتے کہ اردو اسکول ہندو یا سکھ علاقے میں کیوں نہیں کھولے جاتے۔ اردو تو سب کی زبان ہے۔ آج تک اس بات کو لے کر کسی نے احتجاج کیا، دھرنا دیا، سڑکوں پر اُترے، بھوک ہڑتال کی... نہیں بھائی نہیں کی... اس لئے کہ سب کے سب دل کی گہرائیوں سے یہی سمجھتے ہیں کہ اردو کا لالی پاپ صرف مسلمانوں کے لئے ہے۔ یہ دانہ انہیں کو زیر دام لانے کے لئے ڈالا جاتا ہے پھر اردو کو مسلمان اپنی زبان سمجھے تو برائی کیا ہے۔ کمال ہے، مرکزی اور ریاستی سرکاریں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان کر چلیں اور غیر مسلم شعرا اور ادبا اسے اپنی مادری زبان نہ سمجھیں اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اگر مسلمان یہ کہے کہ اردو ہماری زبان ہے تو اس پر قیامت ٹوٹے۔ مظہر امام اردو سے ہی دستبردار ہونے پر آمادہ ہوجائیں۔ نہایت احترام کے ساتھ ہم مظہر امام سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسا غیر مسلم ڈھونڈ نکالیں جس نے گزشتہ مردم شماری میں اپنی مادری زبان اردو لکھوائی ہو اور سرکاری نیز غیر سرکاری کاغذات میں مادری زبان کے کالم میں ’اردو‘ لکھتا ہو۔ اور اگر موصوف ایسا کوئی نام نہیں پیش کرسکتے تو اردو سے دستبردار ہونے میں اب دیر نہ کریں۔
ہمیں عرض یہ کرنا ہے کہ ہندوستان میں اردو کو مسلمانوں کی زبان مان لینے میں کوئی نقصان نہیں۔ اس سے اتنا تو ہوگا کہ دستور ہند میں دفعہ 25 تا 30 کے تحت اس زبان کو گارنٹی مل جائے گی۔ خصوصاً دفعہ 29 کے تحت مسلمانوں کو اس کے تحفظ اور فروغ کے لئے آئینی حق حاصل ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ وہ لوگ جو اردو سے فائدہ تو اٹھالیتے ہیں لیکن کوئی قربانی نہیں دیتے وہ حاشیے پر لگ جائیں گے۔ مزید یہ کہ بقول پروفیسر طاہر محمود ’’اُردو میں آتنک وادی‘‘ جو گھس رہے ہیں ان کے خلاف اردو کی بے حرمتی اور بے آبروہی کرنے کا الزام لگاکر قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔ میڈیا پر قدغن لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ’’ہندی‘‘ نشریات اور دوسرے پروگراموں میں اُردو الفاظ کا استعمال نہ کریں اور اگر کرتے ہیں تو ان نشریات اور پروگراموں کو ’’ہندی اردو نشریات‘‘ یا ’’ہندوستانی نشریات‘‘ کا نام دیں۔ اردو کے خوبصورت موثر اور غنائیت سے بھرپور الفاظ، جملے، محاورات اور اشعار لے کر (اکثر ان کا حلیہ بگاڑ کر) ہندی کا جھنڈا اونچا کرنا غاصبانہ طرز حکمت ہے اور یہ عمل بد دیانتی کے مترادف ہے۔ اس پر روک اسی وقت لگائی جاسکتی ہے جب اردو کو ہندوستان میں مسلمانوں کی زبان کا درجہ دے دیا جائے۔ ایسی صورت میں اقلیتی زبان کے تحفظ کا حوالہ دے کر فلموں کے متعدد ’’ہندی‘‘ سرٹیکفیٹ کو بھی چیلنج کیا جاسکتا ہے اور فلم سے وابستہ لوگوں کو اپنا جارحانہ رویہ بدلنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے۔