بسم اللہ الرحمان الرحیم
حسب ذیل ہم عائبانہ نماز جنازہ کے بارے میں تفصیل سے سمجھاتے ہیں . بات دراصل یہ ہے کہ
اہل علم كے اقوال ميں سے راجح
قول يہ ہے كہ غائبانہ نماز
جنازہ مشروع نہيں، ليكن جس
شخص كى نماز جنازہ ادا نہ كى
گئى ہو اس كى غائبانہ نماز
جنازہ ادا كى جا سكتى ہے،
مثلا كوئى شخص كفار كے ملک
ميں فوت ہو جائے اور كسى نے
بھى اس كى نماز جنازہ ادا نہ
كى ہو تو اس كى نماز جنازہ
ادا كرنا واجب ہے، ليكن جس
شخص كى نماز جنازہ ادا كى جا
چكى ہو تو اس كى غائبانہ نماز
جنازہ ادا كرنا مشروع نہيں،
كيونكہ سنت نبويہ ميں سوائے
نجاشى كے كوئى اور قصہ نہيں
ہے، اور نجاشى كى بھى اس كے
ملك ميں نماز جنازہ ادا نہيں
كى گئى تھى ...
اسى ليے نبى صلى اللہ عليہ
وسلم نے مدينہ ميں اس كى
غائبانہ نماز جنازہ ادا كى
تھى... اور اس كے علاوہ كئى
بڑے اور سردار فوت ہوئے ليكن
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم
نے نجاشى كے علاوہ كسى اور كى
نماز جنازہ ادا نہيں كى .
اور بعض اہل علم كا كہنا ہے
كہ جس شخص نے اپنے مال سے
دينى خدمات سرانجام دي ہوں،
يا اس كى علمى خدمات ہوں اس
كى غائبانہ نماز جنازہ ادا
كرنا جائز ہے... اور جس كى
خدمات نہ ہوں اس كى غائبانہ
نماز جنازہ ادا نہيں كى
جائيگى.
اور بعض اہل علم كہتے ہيں :
مطلقا غائبانہ نماز جنازہ
ادا كى جا سكتى ہے، اور يہ
ضعيف ترين قول ہے .
ديكھيں: سوال فى احكام
المقابر شيخ محمد صالح
العثيمين صفحہ نمبر ) 9
و ما علینا الاالبلاع
Bookmarks