بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
خاتم النبیین کی قرآنی تفسیر
اب سب سے پہلے دیکھیں کہ اس کا کیا ترجمہ و تفسیر کیا جانا چاہئے چناچہ ہم دیکھتے ہے کہ لفظ ’
ختم‘ کا مادہ قرآن مجید میں سات مقامات پر استعمال ہوا ہے
1
خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ (بقرہ 7) مہر کردی اللہ نے ان ک دلوں پر
2
وَخَتَمَ عَلَىٰ قُلُوبِكُمْ (انعام 46) اور مہر کردی تمھارے دلوں پر
3
وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ (الجاثیہ 23) مہر کردی اس کے کان پر اور دل پر
4
الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ (یٰسن 65) آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے
5 فَ
إِنْ يَشَإِ اللَّهُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ (الشورٰی24) اگر الله چاہے تو آپ کے دل پر مُہر کر دے
6
رَحِيقٍ مَخْتُومٍ (مطففین 25) مہر لگی ہوئی
7
خِتَامُهُ مِسْكٌ (مطففین 26) جسکی مہر جمتی ہے مشک پر
ان ساتوں مقامات کے اول و آخر دیکھلیں ’
ختم‘ کا مادہ کا لفظ جہاں کہیں استعمال ہوا ہے ان تمام مقامات پر قدر مشترک یہ ہے کہ کسی چیز کو ایسے طور پر بند کرنا اس کی ایسی بندش کرنی کے باہر سے کوئی چیز اس میں داخل نہ ہو سکے اور اندر سے کوئی چیز باہر نہ نکالی جا سکے وہاں پر ’
ختم‘ لفظ کا استعمال ہوا ہے
اب آپ پہلی آیت پر غور کریں کہ ”
اللہ نے ان کافروں کے دلوں پر مہر کردی“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ”
کفر ان کے دلوں سے باہر نہیں نکل سکتا‘ اور باہر سے ایمان ان کے دلوں میںداخل نہیں ہوسکتا“ تو فرمایا ”
خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ “
اب زیر بحث آیت ”
خاتم النبیین “ کا اس قرآنی تفسیر کے اعتبار سے ترجمہ کریں تو اسکا معنٰی یہ ہوگا کہ رحمت دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد حق پر اللہ تعالٰی نے انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ پر ایسی
بندش کردی ‘ ایسی
مہر لگادی کہ اب کسی کو اس سلسلے سے نکالا کا سکتا ہے اور نہ کسی نئے شخص کو سلسلہ نبوت میں داخل کیا جا سکتا ہے .
والسلام
محمد مظفر
Bookmarks