یہ مجھے کسی نے فارورڈ کی تھی مجھے بہت اچھی لگی اور بہت کچھ سیکھا ہے
شاید آپ کو بھی اس سے کوئی رہنمائی مل جائے ... شکریہ
کوئی غلطی ہو گئی ہو تو تصیح اور درگزر کر دیجیے گا
ثناء
صبر نفس کو اضطراب اور بے چینی سے روکنے کے لیے آتا ہے۔ سورۂ حجرات کی آیت 'وَلَوْ اَنَّہُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْْہِمْ' (٤٩: ٥)۔ (اور اگر وہ تمھارے باہر نکلنے تک صبر سے کام لیتے) میں یہ اپنے اِسی ابتدائی مفہوم میں استعمال ہواہے۔ پھر اِس سے مشکلات اور موانع کے علی الرغم پا مردی، استقلال اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے موقف پر جمے رہنے کے معنی اِس میں پیدا ہوگئے ہیں۔ چنانچہ آیۂ زیر بحث میں جس صبر کا ذکر ہے، وہ عجز و تذلل کے قسم کی کوئی چیز نہیں ہے جسے بے بسی اور درماندگی کی حالت میں مجبوراً اختیار کیا جائے، بلکہ عزم و ہمت کا سرچشمہ اور تمام سیرت و کردار کا جمال و کمال ہے۔ اِسی سے انسان میں یہ حوصلہ پیدا ہوتا ہے کہ زندگی کے ناخوش گوار تجربات پر شکایت یا فریاد کرنے کے بجاے وہ اُنھیں رضا مندی کے ساتھ قبول کر لے اور خدا کی طرف سے مان کر اُن کا استقبال کرے۔ اِس مفہوم کے لحاظ سے 'صابر' وہ شخص ہے جو ہر خوف و طمع کے مقابل میں اپنے موقف پر قائم اور اپنے پروردگار کے فیصلوں پر راضی اور مطمئن رہے۔
اِس کے تین مواقع قرآن میں بیان ہوئے ہیں: غربت، بیماری اور جنگ۔ غور کیجیے تو تمام شدائد و مصائب کا منبع یہی تین چیزیں ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآءِ وَالضَّرَّآءِ وَحِیْنَ الْبَاْسِ.(البقرہ٢: ١٧٧)
''اور جو تنگی، بیماری اور جنگ کے مواقع پر ثابت قدم رہیں۔''
اِس آیت میں 'نصب علی المدح' کے طریقے پر صبر کو نمایاں کر کے قرآن نے بتا دیا ہے کہ سیرت و کردار کے معاملے میں اِس کی اہمیت کس قدر غیر معمولی ہے۔ اِس کی مزید وضاحت قرآن مجید میں اِس کے مواقع استعمال سے ہوتی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب دعوت حق کے لیے کھڑے ہوئے تو آپ کو ہدایت کی گئی کہ لوگوں کی عداوت اور دشمنی کی پروا کیے بغیر پوری سرگرمی کے ساتھ اپنے کام میں لگے رہیں، یہاں تک کہ اللہ کا فیصلہ ظاہر ہو جائے۔ آپ کو ہر حال میں اِس فیصلے کا انتظار کرنا ہے۔ اِس سے پہلے آپ کوئی اقدام نہیں کر سکتے۔ قرآن میں یہ مفہوم اِسی لفظ صبر سے ادا ہوا ہے:
وَاتَّبِعْ مَا یُوْحٰۤی اِلَیْْکَ وَاصْبِرْ حَتّٰی یَحْکُمَ اللّٰہُ وَہُوَ خَیْْرُ الْحٰکِمِیْنَ.(یونس١٠: ١٠٩)
''اور اُس وحی کی پیروی کرو جو تمھاری طرف کی جا رہی ہے اور صبر کے ساتھ انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ فیصلہ کر دے اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔''
ایوب علیہ السلام پر مصیبتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، لیکن اُنھوں نے تسلیم و رضا کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ اللہ تعالیٰ نے اِس پر اُن کی مدح کی تو اِس کے لیے بھی یہی تعبیر اختیار کی ہے:
اِنَّا وَجَدْنٰہُ صَابِرًا، نِعْمَ الْعَبْدُ، اِنَّہۤ، اَوَّابٌ. (ص٣٨ :٤٤)
''ہم نے اُسے بہت صابر پایا، بہترین بندہ، وہ اپنے پروردگار کی طرف بڑا ہی رجوع کرنے والا تھا۔''
لقمان کی نصیحت قرآن میں نقل ہوئی ہے۔ راہ حق کی مصیبتوں کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے لیے اُنھوں نے بیٹے کو اِسی کی تلقین فرمائی ہے:
وَاْمُرْ بِالْمَعْرُوْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ، اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ.(لقمان٣١: ١٧)
''اور بھلائی کی تلقین کرو اور برائی سے روکو اور جو مصیبت بھی پیش آئے اُس پر صبر کرو۔ اِس میں شبہ نہیں کہ یہ بڑے حوصلے کا کام ہے۔''
دعوت کی جدوجہد کے لیے اٹھنے والوں کو ایک اہم ہدایت قرآن میں یہ کی گئی ہے کہ اُن کے مخاطبین اگر ظلم و زیادتی اور ایذارسانی پر اتر آئیں تو بہتر یہی ہے کہ اُن کی بدتمیزیوں کو نظر انداز کر کے وہ اُن کی بد خواہی کا جواب بھی نیکی سے دیں۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ برداشت، تحمل اور عفو و درگذر کی جو صفت اِس کے لیے آدمی کو اپنے اندر پیدا کرنی پڑتی ہے، قرآن میں اُس کے لیے صبر ہی کا لفظ آیا ہے:
اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ، اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ، وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہ، وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ. (النحل١٦: ١٢٥-١٢٦)
''اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ دعوت دو اور اچھی نصیحت کے ساتھ اور اِن سے بحث کرو اُس طریقے سے جو پسندیدہ ہو۔ بے شک، تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے اُن کو بھی جو اُس کی راہسے بھٹکے ہوئے ہیں اور اُن کو بھی جو ہدایت پانے والے ہیں۔ اور اگر بدلہ لو تو اُتنا ہی جتنی تکلیف تمھیں پہنچی ہے اور اگر صبر کرو تو صبر کرنے والوں کے لیے یہ بہت ہی بہتر ہے۔''
وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلاً مِّمَّنْ دَعَآ اِلَی اللّٰہِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَّقَالَ: اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ، وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلَا السَّیِّئَۃُ، اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہ، عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہ، وَلِیٌّ حَمِیْمٌ، وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰہَآ اِلَّا ذُوْحَظٍّ عَظِیْمٍ.(حٰم السجدہ ٤١: ٣٣-٣٥)
''اور اُس سے بڑھ کر اچھی بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اور (یہ حقیقت ہے کہ) بھلائی اور برائی یکساں نہیں ہے۔ تم برائی کو اُس خیر سے دفع کرو جو بہتر ہے تو تم دیکھو گے کہ وہی جس کے اور تمھارے درمیان عداوت تھی، وہ گویا ایک سرگرم دوست ہے۔ اور (یاد رکھو کہ) یہ دانش اُنھی کو ملتی ہے جو صبر کریں اور اُنھی کو ملتی ہے جو بڑے نصیب والے ہوتے ہیں۔''
میدان جنگ میں جب موت سامنے کھڑی ہوتی ہے، کلیجے منہ کو آتے ہیں اور آنکھیں خوف سے پتھرا جاتی ہیں تو جو لوگ بہادری اور استقامت کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کریں اور اُن کے پاے استقلال میں لغزش نہ آئے، اُن کے لیے بھی یہی لفظ ہے:
فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَۃٌ صَابِرَۃٌ یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْْنِ، وَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ اَلْفٌ یَّغْلِبُوْۤا اَلْفَیْْنِ بِاِذْنِ اللّٰہِ، وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ. (الانفال٨: ٦٦)
''لہٰذا تم میں سے اگر سو صبر کرنے والے ہوں گے تو دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ہزار ایسے ہوں گے تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر بھاری رہیں گے، اور (حقیقت یہ ہے کہ) اللہ اِنھی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔''
اللہ تعالیٰ نے جو فرائض اور ذمہ داریاں انسان پر عائد کی ہیں، اُنھیں عمر بھر پورے استقلال اور مضبوطی کے ساتھ ادا کیا جائے اور استاذ امام کے الفاظ میں جس طرح کسان اپنے کھیت میں ہل چلاتا، اُس میں تخم ریزی کرتا، اُس کو پانی دیتا اور برابر اُس کی نگرانی کرتا ہے، اِسی طرح بندۂ مومن اگر اپنے اِس مبارک مزرعہ میں پوری محنت اور اِس کی پوری حفاظت کرے تو اُس کے لیے بھی یہی تعبیر ہے:
رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَیْْنَہُمَا، فَاعْبُدْہُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہ.(مریم١٩: ٦٥)
''زمین و آسمان اور اُن کے درمیان کی ہر چیز کا پروردگار وہی ہے، سو اُسی کی بندگی کرو اور صبر کے ساتھ اُس کی بندگی پر قائم رہو۔''
رنج و راحت اور حزن و مسرت کے جو مواقع زندگی میں ہر شخص کو پیش آتے ہیں، اُن میں اگر آدمی ضبط نفس سے کام لے، خوشی اور مسرت اُس میں فخر و غرور پیدا نہ کرے اور غم و اندوہ کی حالت میں اُس کے اندر مایوسی اور بددلی نہ ہو تو اِس رویے کے لیے بھی قرآن میں یہی لفظ اختیار کیا گیا ہے:
وَلَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰہَا مِنْہُ اِنَّہ، لَیَئُوْسٌکَفُوْرٌ، وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَآءَ بَعْدَ ضَرَّآءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ: ذَہَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ، اِنَّہ، لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ اِلاَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ، اُولٰۤـئِکَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ کَبِیْرٌ.(ہود١١: ٩-١١)
''اور اگر ہم انسان کو اپنی رحمت سے نوازتے، پھر اُس سے محروم کر دیتے ہیں تو وہ مایوس ہو جاتا ہے اور ناشکری کرنے لگتا ہے، اور اگر اُس مصیبت کے بعد جو اُس پر آئی تھی، اُسے ہم نعمتوں سے نوازتے ہیں تو کہتا ہے کہ میری مصیبتیں ختم ہوئیں، پھر وہ پھولا نہیں سماتا اور اکڑنے لگتا ہے۔ اِس سے مستثنیٰ صرف وہی ہیں جو صبر کرنے والے ہیں اور نیکو کار ہیں۔ یہی ہیں جن کے لیے مغفرت بھی ہے اور بڑا اجر بھی۔''
اِس سے واضح ہے کہ صبر مجبوری کے درگذر اور بے بسی کی خاموشی کا نام نہیں ہے، بلکہ اِس چیز کا نام ہے کہ بندۂ مومن ہر حال میں اپنے رب کے فیصلوں پر راضی رہے، نتیجۂ عمل میں تاخیر سے پریشان نہ ہو، اضطراب اور بے چینی سے بچا رہے، برائی کرنے والوں کے لیے بھی اپنے دل میں انتقام کا کوئی جذبہ پیدا نہ ہونے دے، حق کی مدافعت کا موقع ہو تو موت کو سامنے دیکھ کربھی ثابت قدم رہے، رنج و راحت کی ہر حالت میں ضبط نفس سے کام لے اور جس چیز کو فرض وواجب سمجھے، تمام عمر اُس کی پابندی کرتا رہے۔
انسان کی سیرت کا یہی پہلو ہے جس سے خدا اور بندے کے درمیان وہ تعلق قائم ہوتا ہے جسے توکل سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی ہر حال میں خدا ہی پر بھروسا کیا جائے۔ 'اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْْہِ رٰجِعُوْنَ' اِسی تفویض اور سپردگی کا کلمہ ہے۔ قرآن کا بیان ہے کہ اُن لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے خاص الطاف و عنایات ہیں جو اِس کلمے پر قائم رہتے اور اِسی پر دنیا سے رخصت ہوتے ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْہُمْ مُّصِیْبَۃٌ، قَالُوْۤا: اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّـآ اِلَیْْہِ رٰجِعُوْنَ. اُولٰۤـئِکَ عَلَیْْہِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَرَحْمَۃٌ، وَاُولٰۤـئِکَ ہُمُ الْمُہْتَدُوْنَ.(البقرہ٢: ١٥٥-١٥٧)
''اور (اِس میں) جو ثابت قدم ہوں گے، اُنھیں (کامیابی کی) بشارت دو۔ (وہی) جنھیں کوئی مصیبت پہنچے تو کہیں کہ لاریب، ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہمیں (ایک دن) اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اُن کے پروردگار کی عنایتیں اور اُس کی رحمت ہو گی اور یہی ہیں جو (اُس کی) ہدایت سے بہرہ یاب ہونے والے ہیں۔''
Bookmarks