عین جس روز (دس دسمبر) پاکستان میں انسانی حقوق کا دن ایک لازمی عالمی مجبوری کے طور پر منایا جا رہا تھا۔ پاکستان کی سپریم کورٹ قومی انٹیلی جینس ایجنسیوں کو احکامات دے رہی تھی کہ ان گیارہ قیدیوں کو رشتے داروں سے ملوایا جائے جنہیں دھشت گردی کے الزامات سے عدالتی رہائی کے باوجود ان ایجنسیوں نے مئی کے مہینے میں راولپنڈی کی اڈیالہ جیل سے غائب کر دیا اور پھر عدالت کے روبرو ان افراد کے وجود سے سات ماہ تک مکرتی رہیں۔
جب عدالت نے اڈیالہ جیل کے سپرینڈنٹ اور ان کے ڈپٹی کی گرفتاری کا حکم جاری کیا کہ جن کی موجودگی میں یہ افراد غائب ہوئے تھے اور ان افراد کی بازیابی نہ ہونے کی صورت میں مزید تادیبی احکامات جاری کرنے کا انتباہ کیا تب اچانک یہ گیارہ افراد کسی شدت پسند کیمپ پر‘چھاپے’ کے دوران برآمد بھی ہوگئے اور ان پر فیلڈ کورٹ مارشل کے لیے فردِ جرم بھی عائد ہوگئی۔ ایجنسیوں کے وکیلِ صفائی عدالت کو پھر بھی یہ بتانے میں ناکام رہے کہ انہیں کب اور کس جگہ سے گرفتار کیا گیا۔
مقدمے کے دوران عدالت نے یہ بھی پوچھا کہ آخر انٹیلی جینس ایجنسیاں کس قانون کے دائرے میں آتی ہیں اور کس اختیار کے تحت لوگوں کو حراست میں لیتی ہیں۔ (جبکہ ایک گذشتہ مقدمے میں چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں اعلی عدالت کا ایک بنچ یہ حکم صادر کر چکا ہے کہ ایجنسیاں براہ راست گرفتاریوں کے بجائے پولیس کے ذریعے لوگوں کو حراست میں لیں تاکہ یہ گرفتاریاں ریکارڈ پر رہیں)۔
اس استفسار پر وکیلِ صفائی نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایجنسیاں کسی قانون کے دائرے میں نہیں آتیں۔ یہ پہلا موقع نہیں کہ عدالت نے یہ سوال پوچھا ہو۔ چند برس پہلے سندھ ہائی کورٹ کے روبرو بھی کہا جاچکا ہے کہ ایجنسیاں وزارتِ دفاع کی انتظامی ماتحت ضرور ہیں لیکن اپنے فرائض کی انجام دہی میں آزاد ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اگر ایجنسیاں کسی بھی آئینی شق یا فوجداری قانون کے تحت نہیں تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ آئی ایس آئی وزیرِ اعظم سیکرٹیریٹ کو جوابدہ ہے۔ ایم آئی آرمی ہائی کمان کے تحت ہے اور آئی بی وزارتِ داخلہ کا ذیلی ادارہ ہے۔
چلیے کسی اور کو نہیں تو آئی ایس آئی وزیرِ اعظم کو، ایم آئی بری فوج کے سربراہ کو اور آئی بی وزیرِ داخلہ کو تو اپنے اقدامات کے بارے میں اعتماد میں لیتی ہی ہوگی۔ اگر ایسا ہے تو پھر عدالت کے روبرو بیانِ حلفی میں تضادات کا کیا مطلب لیا جائے۔ کیا ایجنسیاں اپنے باسز کے کہنے پر ایسا کرتی ہیں یا باسز کو بھی پوری طرح اعتماد میں نہیں لیتیں۔
کیا موساد، را، ایم آئی فائیو اور سکس، سی آئی اے یا ایف بی آئی کسی مینڈیٹ یا قانون کے دائرے میں رہ کر خفیہ آپریشن کرتے ہیں یا قومی سلامتی کے نام پر انہیں بھی بلا احتساب کھلی چھوٹ حاصل ہے۔
کیا موساد، را، ایم آئی فائیو اور سکس، سی آئی اے یا ایف بی آئی کسی مینڈیٹ یا قانون کے دائرے میں رہ کر خفیہ آپریشن کرتے ہیں یا قومی سلامتی کے نام پر انہیں بھی بلا احتساب کھلی چھوٹ حاصل ہے
اگر ایسا نہیں تو سپریم کورٹ آف پاکستان ان ایجنسیوں کے لیے ازخود دائرہ کار طے کر کے اس پر عمل درآمد کیوں نہیں کروا سکتی۔ اگر یہاں بھی پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ عدلیہ بوجوہ معذور ہے تو کم ازکم سپریم کورٹ یہ تشریح تو کر سکتی ہے کہ کسی بھی قانون یا مینڈیٹ کے دائرے میں نہ آنے والے حساس سرکاری اداروں اور طالبان ، بی ایل اے، لشکرِ طیبہ اور سپاہ صحابہ میں کیا بنیادی فرق ہے۔ آخر ان تنظیموں کے بارے میں بھی تو کوئی نہیں جانتا کہ وہ کس آئین یا قانون کو مانتی ہیں؟
اور ہاں ! ایک برس پہلے غائب افراد کی بازیابی کے لیے حکومت نے سپریم کورٹ کی رضامندی سے جو عدالتی کیمشن قائم کیا تھا۔ کیا وہ قائم ہوگیا ہے یا ہونا ہے ؟ کیا اس کا پتہ یا کوئی ہاٹ لائن نمبر دستیاب ہے؟ مجھے نہیں چاہیے۔ ہزاروں غائب لوگوں کے رشتے داروں کو چاہیے!!
Bookmarks