اپنے حالات کے انجام سے ڈر کیوں جاؤں
زندگی تو نے مجھے دی ہے تو مر کیوں جاؤں
کیوں مری موت بنے تجھ سے جدائی کا سبب
تو مری جاں ہے تو میں جاں سے گزر کیوں جاؤں
تو نے تعمیر کیا ہے لبِ ساحل مجھ کو
میں فگر ریت نہیں ہوں تو بکھر کیوں جاؤں
مجھ کو چکھنا ہے ابھی تو شبِ وعدہ کا مزا
پڑ گئی شام تو میں لوٹ کے گھر کیوں جاؤں
موت سے کم تو نہیں ضبط بھی عاشق کے لئے
خود کشی کر کے میں رسوا تجھے کر کیوں جاؤں
نت ملے مجھ کو جہاں ایک نئی خوشخبری
میں وہاں بن کے بری کو ئی خبر کیوں جاؤں
اس کی نظروں میں ہے شا ید کوئی برساتی ندی
میں محبت کا سمندر ہوں، اتر کیوں جاؤں
ایک شب تاب کرن مجھ میں سما ئی ہے قتیل
روشنی کے لئے میں چاند نگر کیوں جاؤں
قتیلؔ شفائی
Bookmarks