جزاک اللہ ساجد بھائی
آپ کی محبت کا بہت بہت شکریہ
یہاں ایک نقطہ واضح کرتے چلیں کہ شرعی احکامات دو قسم کے ہیں
دین کے وہ احکام و معاملات جو وضاحت و صراحت کے ساتھ معلوم ہوں۔ جیسے روزہ ، نماز، حج ، زکوٰة اسی طرح زنا اور شراب کا حرام ہونا وغیرہ.اور جیسے صانع عالم اور اس کی صفات کی معرفت اس طرح رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے سچے ھونے کی معرفت وغیرہ
ایسے بنیادی احکامات کا علم رکھنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے.
ابن جریر رحمتہ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ قرآن پاک کی تفسیر کی چار قسمیں ہیں
ایک وہ جو کلام عرب سے سمجھی جاتی ہے دوسری وہ جس کی جہالت میں کوئی معذور نہیں تیسری وہ جسے ذی علم جان سکتے ہیں چوتھی وہ جسے اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا (تفسیر طبری 75/1)
دوسری قسم کی تفسیر یعنی حلال حرام کے متعلق جہالت آخرت میں قابل قبول نہ ہوگی
یعنی ایسے احکامات کے بر خلاف عمل کیا اور عذر پیش کیا کہ ہمیں علم نے تھا تو یہ عذر قبول نہیں کیا جائے گا
جبکہ دوسری طرف دین کے وہ احکام و معاملات ہیں جن کو فرع دین کہا جاتا ہے
یعنی ایسے مسائل جن کا ثبوت وضاحت کے ساتھ کسی آیت اور حدیث میں نہیں ملتا۔ یا اگر ثبوت پایا جاتا ہے تو وہ آیت اور حدیث اور بھی معنی اور وجوہ کا احتمال رکھتی ہے ، یا کسی دوسری آیت یا حدیث سے بظاھر متعارض معلوم ھوتی ھے۔ ایسے مسائل کو مسائل اجتہادیہ کہتے ہیں اور ان کا صحیح حکم مجتہد کے اجتہاد ہی سے معلوم ھوسکتا ہے۔ وہ شخص جو اپنے اندر اجتہاد کی قوت نہیں رکھتا، اگر ان مسائل میں رائے زنی کرنے لگے تو نفسانی خواھشات کے پھندوں میں الجھ کر رہ جائے گا۔
ایسے مسائل کی تحقیق کرنااور کوئی نتیجہ اخذ کرناعام مسلمان کے لئے ممکن نہیں اس لئے عام مسلمانوں کو اجتہادی مسائل میں علماء کرام کی اتباع کے سوا کوئی چارہ نہیں
لیکن اگر کسی مسلمان کو دین کا علم حاصل کرنے کا شوق لگن ہو تو وہ ضرور علم دین حاصل کرے اس کے بعد وہ وہ تحقیق بھی کرنا چاہے تو ضرور کرے اس کی کوئی ممانعت نہیں لیکن بنا دین کا علم سیکھے کسی عام مسلمان کا تحقیق اور رائے زنی کرنا یقینا کسی کے نزدیک بھی درست نہ ہوگا
امید ہے کہ قارئین کرام اوپر والی تحریر کو سمجھنے کے لئے ان نکات کو بھی ضرور مدنظر رکھیں گے .جزاک اللہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے .آمین
Bookmarks