آنکھ جو دیکھتی ہے
( روح اقبال سے معذرت کے ساتھ )
زمانہ آيا ہے بے حجابي کا عام ديدار ہے يار ہوگا
بس اور کپڑا نہ سل سکے گا، جو تن پہ ہے تار تار ہوگا
تلاش گندم کو گھر سے نکلے گا قافلہ، مور نوتواں کا
پلٹ کے آيا توسب کے پہلو ميں اک دل داغدار ہوگا
قصائي بکرے کا گوشت لے کر، سبھي ہمالہ پہ جا چڑھيں گے
جو ان کا پيچھا کرے گا گھس پس کے ايک مشت غبار ہوگا
مٹھائي اس روپے کي سير اور لاٹري بھي ملا کرے گي
جو عہد حلوائيوں سے باندھا گيا تھا، وہ استوار ہوگا
چڑھے گي قيمت وہ جوتيوں کي نہ ان کئي ان تک پہنچ سکے گا
برہنہ پائي وہي رہے گي مگر دنيا خارزار ہوگا
کفن کي قيمت سنيں گے مردے تو اس کے صدمے سے جي اٹھيں گے
جنازہ اٹھے گا اب کسي نہ اب کسي کا مزار ہوگا
کچل کر سرجس کا چور بازار بند کرنےکي آرزو تھي
سنا ہے اک آڑھتي سے ميں نے وہ سانپ پھر ہوشيار ہوگا
نہ پوچھو اکبر کا کچھ ٹھکانہ، ابھي وہ ہي کيفيت ہے اس کي
يہ ہي کہيں چوک ميں کھڑا قيمتوں کا شکوہ گزار ہوگا
Bookmarks