بی بی سی اردو سے
خیبر: لڑکیوں کا ایک اور سکول تباہ
ان دھماکوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ تعلیم کے حصول سے محروم ہوچکے ہیں
پاکستان کے قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ نامعلوم مسلح افراد نے لڑکیوں کے ایک اور سکول کو دھماکہ خیز مواد سے تباہ کر دیا ہے۔
پولیٹکل انتظامیہ کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اتوار اور پیرکی درمیانی رات خیبر ایجنسی میں لنڈی کوتل تحصیل کے علاقے کنڈاوخیل میں مسلح افراد نے لڑکیوں کے ایک سرکاری سکول کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ حملے میں سکول کی چار دیواری مکمل طور پر تباہ ہوگئی ہے۔دھماکے سے تین کمروں اور برآمدے کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
نامہ نگار دلاورخان وزیر کا کہنا ہے کہ ابھی تک کسی تنظیم نے تازہ حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم اس سے پہلے سکولوں اور دیگر سرکاری تنصیبات پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری مقامی طالبان وقتاً فوقتاً قبول کرتے رہے ہیں۔
سرکاری اعداد وشمار کے مطابق خیبر ایجنسی میں چالیس سے زیادہ سکول، بنیادی صحت کے مراکز اور دیگر سرکاری و نیم سرکاری دفاتر کو تباہ کیا جاچکا ہے۔ ان دھماکوں کی وجہ سے ہزاروں طلبہ تعلیم کے حصول سے محروم ہوچکے ہیں۔
خیبر ایجنسی میں شدت پسند طالبان اور کئی مذہبی تنظیمیں موجود ہیں جو افغانستان میں نیٹو کے لیے رسد لے جانے والی گاڑیوں پر حملے مں ملوث بتائے جاتے ہیں۔
مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ حکومت کی طرف سے علاقے میں باقی ماندہ رہ جانے والے سکولوں کو تحفظ فراہم کرانے کے لیے تاحال اقدامات دیکھنے میں نہیں آ رہے اور سکیورٹی فورسز کی موجودگی میں سکولوں کو تباہ کیاجا رہا ہے۔
خیبر ایجنسی میں گزشتہ چند برس کے دوران دو مرتبہ سکیورٹی فورسز نے شدت پسندوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائی کی ہے جس میں حکام نے خیبر ایجنسی کے اکثر علاقوں سے شدت پسندوں کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔تاہم ابھی تک کسی بھی علاقے سے شدت پسندوں کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جاسکا ہے اور علاقے میں شدت پسند بدستور موجود ہیں۔