بی بی سی اردو سےزخم پھر سے ہرے ہوگئے
لاہور بم دھماکہ میں نو سے زیادہ ہلاک اور پچاس کے لگ بھگ زخمی ہوئے
دہشت گردی کے مختلف واقعات میں ہلاک ہونے والے افراد کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ اردو بازار لاہور میں ہونے والے خودکش حملے نے ان زخموں کو پھر سے ہرا کردیا ہے اور وہ تمام منظر ان کی آنکھوں کے سامنے آگیا جب ان کے اپنے عزیزدہشت گردی کا شکار ہوئے۔
خودکش حلموں کا نشانہ بننے والے افراد کے لواحقین کے بقول دہشت گردی کے کسی بھی نئے واقعہ کے بعد انہیں یوں لگتا ہے کہ ان پر دوبارہ قیامت ٹوٹ پڑی ہے اور ان کا غم تازہ ہوجاتا ہے ۔
لاہور کے علاقے اردو بازار میں خودکش حملے میں گیارہ افراد ہلاک اور ساٹھ سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے ۔ ہلاک ہونے والوں میں پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔
لاہور میں ون فائیو کی عمارت پر خودکش حملے میں ہلاک ہونے والے بیس سالہ کانسٹبیل عمیر نذیر کے بڑے بھائی ندیم کا کہنا ہے کہ منگل کی رات ہونے والے خودکش حملہ کے بعد انہیں ایسا لگا کہ جیسے ان کا اپنا بھائی اس واقعہ میں ہلاک ہوگیا ہے ۔
میرا چھ سالہ بیٹا اردو بازار میں ہونے والے خودکش حملے کے ٹی وی پر مناظر دیکھ کر جذباتی ہوگیا اور بچے کی آنکھوں میں آنسو آگئے ، بچے کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو جان سے مار دے گا ۔
ندیم، ایک شہری
بی بی سی کے نامہ نگار عبادالحق سے بات کرتے ہوئے ندیم نے بتایا کہ اردو بازار میں ہونے والے خودکش حملے نے ان کے زخم ہرے کردیئے ہیں کیونکہ دہشت گردی کے ہر واقعہ کے بعد وہی منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے جب ان کا بھائی خودکش حملے میں ہلاک ہوا تھا اور انہوں یوں لگتا ہے کہ ان کا بھائی مرگیا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ لاہور میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کے بعد ان کے گھر کا ماحول سوگوار ہوگیا تھا اور یوں لگا کہ جیسے قیامت آگئی ہو۔
ندیم نے بتایا کہ ان کا چھ سالہ بیٹا اردو بازار میں ہونے والے خودکش حملے کے ٹی وی پر مناظر دیکھ کر جذباتی ہوگیا اور بچے کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ ان کے بقول ان کے بچے کا کہنا تھا کہ وہ دہشت گردوں کو جان سے مار دے گا ۔
دہشت گردی کے واقعہ میں ہلاک ہونے والے محمد بشیر کی بیوہ نازیہ کا کہنا ہے کہ وہ اس لمحے کو کبھی نہیں بھول سکتیں جب انہیں اپنے شوہر کی ہلاکت کی اطلاع ملی تھی اور اسی لیے جب انہیں کسی خودکش حملہ کے بارے میں معلوم ہوتا ہے تو دل سے یہ ہی بات نکلتی ہے کہ پتا نہیں آج کتنے بچے یتم ہونگے اور کتنی عورتیں بیواؤں ۔

دہشت گردی کا نشانہ بننے والے محمد بشیر کی بیوہ کا کہنا ہے کہ ان کےبچے جب بھی دہشت گردی کے واقعہ کی خبر سنتے ہیں تو اپنے باپ کو یاد کرتے ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ ٹی وی پر خودکش حملہ میں مرنے والوں کو دیکھ ان کے بچے یہ پوچھتے ہیں کہ ْ ْ مما ہمارے ساتھ بھی ایسا ہوا تھا ، ہمارے ابو بھی گھر سے گئے تھے اور پھر واپس نہیں آئے ۔
نازیہ بشیر کا کہناہے کہ ان کے بچے جب ٹی وی پر دہشت گردی کےواقعہ میں مرنے والے افراد کے بچوں کو روتا دیکھتے ہیں تو وہ اپنے بچوں کی آنکھوں میں وہ سب دیکھتی ہیں جو سانحہ سے گزرنے والی کوئی خاتون اپنے بچوں کی آنکھوں میں دیکھتی ہے ۔
کانسٹیبل عیمر کے بھائی ندیم کا کہنا ہے کہ دہشت گردوں کو کڑی سے کڑی سزا دی جائے تاکہ کسی کو دہشت گردی کرنے کی جرات نہ ہو ۔