;
اسلامی انقلاب کی لہر تیونس سے ہوتی ہوئی ایران تک پہنچ گئی
ایران: مظاہرین کےخلاف آنسو گیس کا استعمال
پیر کو ’آمر مردہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں اپوزیشن کے حمایتی تہران کے آزادی سکوائر میں جمع ہوگئے
ایرانی پولیس نے تہران میں حزب مخالف کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کا استعمال کیا ہے۔ تہران میں بی بی سی کے ایک نامہ نگار کے مطابق موٹر سائیکلوں پر سوار ملیشیا اور پولیس کے اہلکاروں نے شہر میں کئی مقام پر اکٹھے ہونے والے مظاہرین کو منشتر کر دیا ہے۔
ایران میں حزب مخالف کے رہنماؤں میر حسین موسوی اور پارلیمنٹ کے سپیکر مہدی کروبی کی نظر بندی کی اطلاعات کے بعد مظاہروں کی کال دی گئی تھی۔
حزب مخالف کی ایک ویب سائٹ پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق ایران حکام نے میر حسین موسوی اور مہدی کاروبی کو ان کے گھروں میں قید کر دیا ہے۔
پیر کے روز دونوں رہنماؤں کے خاندان نے بتایا تھا کہ دونوں رہنماؤں کو گھروں میں نظر بندی کے بعد اب جیل منتقل کر دیا گیا ہے جبکہ ایرانی حکومت نے اس کی تردید کی تھی۔ ان دونوں رہنماؤں پر مصر میں عوامی احتجاج کے ساتھ اظہارِ یکجتہی کے لئے ریلی نکالنے کے اعلان پر پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔
تہران میں بی بی سی کے نامہ نگار کے ایران کی ملیشیا کے اراکان شہر کی سڑکوں پر فتح کے گیت گاتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
ایران سے موصولہ اطلاعات کے شہر کی سڑکوں پر پولیس کی بھاری نفری کے باوجود مظاہرین شہر کے مختلف حصوں میں جمع ہونے میں کامیاب رہے اور پولیس کو ان کے خلاف بارہا کارروائی کی ضرورت پڑی۔ ایران میں گزشتہ برس صدر احمدی نژاد کے انتخاب کے بعد ملک میں وقفے وقفے سے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں ۔ ان مظاہروں کی قیادت ایران کے پارلیمنٹ کے سپیکر مہدی کاروبی اور میر حسین موسوی کرتے رہے ہیں۔
بدترین جھڑپیں آذربائیجان سٹریٹ میں ہوئیں جو آزادی سکوائر کے قریب واقع ہے۔ یہاں کئی ایمبولینسیں آتے اور جاتے دیکھی گئیں۔عینی شاہدوں نے خبر رساں ادارے اے پی کو بتایا کہ گولیاں لگنے سے کم از کم تین افراد زخمی ہوئے
ان دونوں افراد نے جون دو ہزار نو میں صدر احمدی نژاد کی الیکشن میں دوسری مرتبہ کامیابی کو نہیں مانا تھا جس کی وجہ سے ایران میں سنہ انیس سو اناسی کے بعد پہلی مرتبہ بہت بڑے احتجاجی مظاہرے ہوئے تھے۔ تاہم حکومت نے بھرپور طاقت سے اس احتجاج کو دبا دیا تھا۔
اپوزیشن کا کہنا تھا کہ احتجاج شروع ہونے کے بعد چھ ماہ کے دوران اس کے اسی کے قریب حمایتی ہلاک ہوئے۔ تاہم حکومت ان اعداد و شمار کو تسلیم نہیں کرتی۔ کئی افراد کو سزائے موت سنائی گئی ہے جبکہ درجنوں جیلوں میں ہیں۔
Bookmarks