بدن کو غسلِ گدازِ حیات دے دے گا ترا خلوص مجھ
بدن کو غسلِ گدازِ حیات دے دے گا
ترا خلوص مجھے اب کے مات دے دے گا
یہ جڑتے ٹوٹتے کاذب مراسموں کا دیار
مرے یقیں کی صداقت کا سات دے دے گا
میں تھک گیا ہوں کڑی دھوپ کی مسافت سے
کوئی سراب تبسم کی رات دے دے گا
دُعا کو ہاتھ اُٹھاؤں تو کس طرح معبود
جو میں کہوں تو مجھے کائنات دے دے گا؟
یقین جان کہ ہر دُکھ کو بھول جاؤں گا
تو میرے ہاتھ میں جب اپنا ہات دے دے گا
یہ مفلسی کا تسلسل‘ ضرورتوں کا محیط
مجھے سلیقۂ تزئین ذات دے دے گا
وہ ایک لفظ مرے دل پہ ثبت ہے احمد
مری غزل کو جو روحِ ثبات دے دے گا
ALLAH knows Better Always.............
Bookmarks