Results 1 to 5 of 5

Thread: نہر ذبیدہ

  1. #1
    HAQ ALLAH is offline Member
    Last Online
    10th March 2011 @ 09:05 PM
    Join Date
    14 Jan 2011
    Location
    راولپنڈی
    Age
    53
    Gender
    Male
    Posts
    386
    Threads
    126
    Thanked
    86

    Default نہر ذبیدہ

    اسلام علیکم

    نہر زبیدہ
    یہ دوسری صدی ہجری کا زمانہ تھا۔ دنیا کے چپے چپے میں اسلام کی کرنیں اپنی تابناک شعاعیں بکھیر رہی تھیں۔ وہی عرب جو کچھ عرصہ پہلے انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے آج اسلامی تعلیمات کی بدولت باہم بھائی بھائی بن چکے تھے، قبائل کے درمیان باہمی اختلافات بلاشبہ پائے جاتے تھے مگر محاذ جنگ پر جب اکٹھے ہوتے تو سب ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ تلواروں کے سائے میں ان کی نمازیں ادا ہوتی تھیں اور جن ملکوں میں وہ جہاد کا پرچم لہراتے وہاں کے باشندوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ان کی شان تھی۔

    دوسری جانب مسلمان مبلغین بھی دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھے ہوئے تھے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں مملکت اسلامیہ کی باگ ڈور خلیفہ ہارون الرشید کے ہاتھ میں ہے، دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان بیت اللہ شریف کا حج ادا کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں پانی ناپید ہے۔ حجاج کرام اور اہل مکہ بڑی مشکل سے کسی طرح پانی کا بندوبست کر پاتے ہیں۔

    اسی زمانہ میں ملکہ زبیدہ بنت جعفر فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آتی ہیں۔ انہوں نے جب اہل مکہ اور حُجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک عالم بشریت کو یاد رہے گا۔

    ام جعفر زبیدہ بنت جعفر بن ابو جعفر منصور ہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں۔ یہ خلیفہ ہارون الرشید کی چچا زاد بہن تھیں ان کا نام ” امۃ العزیز “ تھا۔ ان کے دادا منصور بچپن میں ان سے خوب کھیلا کرتے تھے، ان کو ” زبیدہ “ ( دودھ بلونےوالی متھانی ) کہہ کر پکارتے تھے، چنانچہ سب اسی نام سے پکارنے لگے اور اصلی نام بھول ہی گئے۔ یہ نہایت خوبصورت اور ذہین و فطین تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون الرشید سے ان کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ذوالحجہ165 ھ میں ہوئی۔ ہارون الرشید نے اس شادی کی خوشی میں ملک بھر سے عوام و خواص کو دعوت پر بلایا اور مدعوین کے درمیان اس قدر زیادہ مال تقسیم کیا جس کی مثال تاریخ اسلامی میں مفقود ہے۔ اس موقع پر خاص بیت المال سے اس نے پچاس ملین درہم ( 50,000,000 ) خرچ کئے۔ ہارون رشید نے اپنے خاص مال سے جو کچھ خرچ کیا وہ اس کے علاوہ تھا۔

    ہارون رشید ملکہ زبیدہ سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنی بیوی کو یہ کہہ کر پکارا: ھلمی یا ام نھر ” ام نہر! ذرا ادھر آنا “ زبیدہ نے بعد میں مشہور عالم اصمعی کو بلوا کر پوچھا: امیر المومنین مجھے ” ام نہر “ کہہ کر پکارتے ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟ اصمعی نے جواب دیا: چونکہ جعفر عربی لغت میں ” نہر “ کو کہتے ہیں اور آپ کی کنیت ام جعفر ہے، اس لئے نہر معنی مراد لے کے آپ کو اس نام سے پکارا ہو گا۔

    زبیدہ بڑی ہی سمجھدار خاتون تھیں، حاشیہ برداروں کے کہنے پر کبھی فوری فیصلہ نہیں کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایک شاعر نے ان کی خدمت میں چند اشعار سنائے، مگر ردیف و قافیہ اور الفاظ کی ترکیب میں شاید وہ اپنا مافی الضمیر اچھی طرح سے ادا نہیں کر سکا۔ شعر کے مفہوم سے ان کی عظمت کے بجائے گستاخی عیاں تھی۔ حشم و خدم نے شاعر کی عبارت کو ملکہ کی بے ادبی پر محمول کیا اور اس کو گرفتار کرنا چاہا مگر ملکہ نے ان سے کہا: اس کو نظر انداز کر دو، کیونکہ جس کی نیت اچھی بات کہنے کی ہو مگر اس سے لغزش ہو جائے، ایسا شخص اس آدمی سے بہتر ہے جس کی نیت بری ہو مگر وہ بات اچھی کہہ جائے۔ “

    ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے ایک سو نوکرانیاں تھیں، جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرات کی گنگناہٹ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔

    زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ مکہ والوں کو بہت زیادہ مال سے نوازتی رہتی تھیں اور حج و عمرہ کے لئے مکہ آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بے حد فیاضانہ تھا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ” جبال طاد “ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔

    ایک نہر جس کا پانی ” جبال قرا “ سے ” وادی نعمان “ کی طرف جاتا تھا اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔ علاوہ ازیں منیٰ کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب بئر زبیدہ کے نام سے تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا ، اس سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا، پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ ( 17,00,000 ) دینار خرچ ہوئے۔

    ملکہ زبیدہ نے انتہائی شوق اور جذبہ اخلاص کے تحت نہر کی کھدائی کرائی تھی۔ وہ حجاج کرام اور اہل مکہ کو پانی کی دشواریوں سے نجات دلانا چاہتی تھیں اور یہ کام اللہ کی خوشنودی کے لئے انہوں نے کیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا: آپ نے جس کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی، تب کہیں جا کر اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

    یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے جو جواب دیا وہ دلچسپ بھی ہے اور اس سے ان کی قوت فیصلہ اور منصوبے سے دلچسپی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے چیف انجینئر سے کہا: اعملھا ولو کانت ضربۃ فاس بدینار اس کام کو شروع کردو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔

    اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر دریا برد کر دیا اور کہنے لگیں: ” الٰہی! مجھے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینی، تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔ “

    ملکہ زبیدہ نے یہ عظیم الشان کام انجام دے کر حجاج کرام اور باشندگان مکہ کو پانی کی قلت کے سبب درپیش مشکلات کا مسئلہ حل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس نہر کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔
    ( یہ واقع وفیات الاعیان۔ البدایۃ والنھایۃ، کتاب الوافی بالوفیات، الاعلام اور تاریخ مکہ مکرمہ، محمد عبدالمعبود وغیرہ کتب سے مواد اکٹھا کر کے لکھا گیا ہے۔ )۔

    شکریہ۔مولانا عبدالمالک مجاہد
    دار السلام ، ریاض


  2. #2
    nissa's Avatar
    nissa is offline Senior Member
    Last Online
    23rd April 2019 @ 10:44 AM
    Join Date
    21 Dec 2011
    Gender
    Female
    Posts
    1,424
    Threads
    54
    Credits
    3,044
    Thanked
    30

    Default

    AMEEN
    JAZAK ALLAH
    [CENTER][SIGPIC][/SIGPIC][/CENTER]

  3. #3
    abdul6616's Avatar
    abdul6616 is offline Advance Member
    Last Online
    15th April 2024 @ 02:21 PM
    Join Date
    13 May 2014
    Location
    Karachi
    Gender
    Male
    Posts
    1,394
    Threads
    291
    Credits
    6,161
    Thanked
    103

    Default


  4. #4
    Baazigar's Avatar
    Baazigar is offline V.I.P
    Last Online
    24th April 2024 @ 04:11 AM
    Join Date
    16 Aug 2009
    Location
    Makkah , Saudia
    Gender
    Male
    Posts
    29,912
    Threads
    482
    Credits
    148,899
    Thanked
    970

    Default

    Quote HAQ ALLAH said: View Post
    اسلام علیکم

    نہر زبیدہ
    یہ دوسری صدی ہجری کا زمانہ تھا۔ دنیا کے چپے چپے میں اسلام کی کرنیں اپنی تابناک شعاعیں بکھیر رہی تھیں۔ وہی عرب جو کچھ عرصہ پہلے انتقام کی آگ میں جھلس رہے تھے آج اسلامی تعلیمات کی بدولت باہم بھائی بھائی بن چکے تھے، قبائل کے درمیان باہمی اختلافات بلاشبہ پائے جاتے تھے مگر محاذ جنگ پر جب اکٹھے ہوتے تو سب ایک دوسرے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ تلواروں کے سائے میں ان کی نمازیں ادا ہوتی تھیں اور جن ملکوں میں وہ جہاد کا پرچم لہراتے وہاں کے باشندوں کے ساتھ عدل و انصاف کرنا ان کی شان تھی۔

    دوسری جانب مسلمان مبلغین بھی دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھے ہوئے تھے، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے مسلمانوں کی تعداد میں بے تحاشا اضافہ ہونے لگا۔ دوسری صدی ہجری کے اواخر میں مملکت اسلامیہ کی باگ ڈور خلیفہ ہارون الرشید کے ہاتھ میں ہے، دنیا کے گوشے گوشے سے مسلمان بیت اللہ شریف کا حج ادا کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ مکہ مکرمہ میں پانی ناپید ہے۔ حجاج کرام اور اہل مکہ بڑی مشکل سے کسی طرح پانی کا بندوبست کر پاتے ہیں۔

    اسی زمانہ میں ملکہ زبیدہ بنت جعفر فریضہ حج کی ادائیگی کے لئے مکہ آتی ہیں۔ انہوں نے جب اہل مکہ اور حُجاج کرام کو پانی کی دشواری اور مشکلات میں مبتلا دیکھا تو انہیں سخت افسوس ہوا، چنانچہ انہوں نے اپنے اخراجات سے ایک عظیم الشان نہر کھودنے کا حکم دے کر ایک ایسا فقید المثال کارنامہ انجام دیا جو رہتی دنیا تک عالم بشریت کو یاد رہے گا۔

    ام جعفر زبیدہ بنت جعفر بن ابو جعفر منصور ہاشمی خاندان کی چشم و چراغ تھیں۔ یہ خلیفہ ہارون الرشید کی چچا زاد بہن تھیں ان کا نام ” امۃ العزیز “ تھا۔ ان کے دادا منصور بچپن میں ان سے خوب کھیلا کرتے تھے، ان کو ” زبیدہ “ ( دودھ بلونےوالی متھانی ) کہہ کر پکارتے تھے، چنانچہ سب اسی نام سے پکارنے لگے اور اصلی نام بھول ہی گئے۔ یہ نہایت خوبصورت اور ذہین و فطین تھیں۔ جب جوان ہوئیں تو خلیفہ ہارون الرشید سے ان کی شادی ہو گئی۔ یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ذوالحجہ165 ھ میں ہوئی۔ ہارون الرشید نے اس شادی کی خوشی میں ملک بھر سے عوام و خواص کو دعوت پر بلایا اور مدعوین کے درمیان اس قدر زیادہ مال تقسیم کیا جس کی مثال تاریخ اسلامی میں مفقود ہے۔ اس موقع پر خاص بیت المال سے اس نے پچاس ملین درہم ( 50,000,000 ) خرچ کئے۔ ہارون رشید نے اپنے خاص مال سے جو کچھ خرچ کیا وہ اس کے علاوہ تھا۔

    ہارون رشید ملکہ زبیدہ سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایک مرتبہ اس نے اپنی بیوی کو یہ کہہ کر پکارا: ھلمی یا ام نھر ” ام نہر! ذرا ادھر آنا “ زبیدہ نے بعد میں مشہور عالم اصمعی کو بلوا کر پوچھا: امیر المومنین مجھے ” ام نہر “ کہہ کر پکارتے ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟ اصمعی نے جواب دیا: چونکہ جعفر عربی لغت میں ” نہر “ کو کہتے ہیں اور آپ کی کنیت ام جعفر ہے، اس لئے نہر معنی مراد لے کے آپ کو اس نام سے پکارا ہو گا۔

    زبیدہ بڑی ہی سمجھدار خاتون تھیں، حاشیہ برداروں کے کہنے پر کبھی فوری فیصلہ نہیں کرتی تھیں۔ ایک مرتبہ ایک شاعر نے ان کی خدمت میں چند اشعار سنائے، مگر ردیف و قافیہ اور الفاظ کی ترکیب میں شاید وہ اپنا مافی الضمیر اچھی طرح سے ادا نہیں کر سکا۔ شعر کے مفہوم سے ان کی عظمت کے بجائے گستاخی عیاں تھی۔ حشم و خدم نے شاعر کی عبارت کو ملکہ کی بے ادبی پر محمول کیا اور اس کو گرفتار کرنا چاہا مگر ملکہ نے ان سے کہا: اس کو نظر انداز کر دو، کیونکہ جس کی نیت اچھی بات کہنے کی ہو مگر اس سے لغزش ہو جائے، ایسا شخص اس آدمی سے بہتر ہے جس کی نیت بری ہو مگر وہ بات اچھی کہہ جائے۔ “

    ملکہ زبیدہ کی خدمت کے لئے ایک سو نوکرانیاں تھیں، جن کو قرآن کریم یاد تھا اور وہ ہر وقت قرآن پاک کی تلاوت کرتی رہتی تھیں۔ ان کے محل میں سے قرات کی گنگناہٹ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح آتی رہتی تھی۔

    زبیدہ نے پانی کی قلت کے سبب حجاج کرام اور اہل مکہ کو درپیش مشکلات اور دشواریوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو انہوں نے مکہ میں ایک نہر بنانے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے بھی وہ مکہ والوں کو بہت زیادہ مال سے نوازتی رہتی تھیں اور حج و عمرہ کے لئے مکہ آنے والوں کے ساتھ ان کا سلوک بے حد فیاضانہ تھا۔ اب نہر کی کھدائی کا منصوبہ سامنے آیا تو مختلف علاقوں سے ماہر انجینئر بلوائے گئے۔ مکہ مکرمہ سے 35 کلومیٹر شمال مشرق میں وادی حنین کے ” جبال طاد “ سے نہر نکالنے کا پروگرام بنایا گیا۔

    ایک نہر جس کا پانی ” جبال قرا “ سے ” وادی نعمان “ کی طرف جاتا تھا اسے بھی نہر زبیدہ میں شامل کر لیا گیا یہ مقام عرفات سے 12 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع تھا۔ علاوہ ازیں منیٰ کے جنوب میں صحرا کے مقام پر ایک تالاب بئر زبیدہ کے نام سے تھا جس میں بارش کا پانی جمع کیا جاتا تھا ، اس سے سات کاریزوں کے ذریعہ پانی نہر میں لے جایا گیا، پھر وہاں سے ایک چھوٹی نہر مکہ مکرمہ کی طرف اور ایک عرفات میں مسجد نمرہ تک لے جائی گئی۔ اس عظیم منصوبے پر سترہ لاکھ ( 17,00,000 ) دینار خرچ ہوئے۔

    ملکہ زبیدہ نے انتہائی شوق اور جذبہ اخلاص کے تحت نہر کی کھدائی کرائی تھی۔ وہ حجاج کرام اور اہل مکہ کو پانی کی دشواریوں سے نجات دلانا چاہتی تھیں اور یہ کام اللہ کی خوشنودی کے لئے انہوں نے کیا۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ جب نہر زبیدہ کی منصوبہ بندی شروع ہوئی تو اس منصوبہ کا منتظم انجینئر آیا اور کہنے لگا: آپ نے جس کا حکم دیا ہے اس کے لئے خاصے اخراجات درکار ہیں، کیونکہ اس کی تکمیل کے لئے بڑے بڑے پہاڑوں کو کاٹنا پڑے گا، چٹانوں کو توڑنا پڑے گا، نشیب و فراز کی مشکلات سے نمٹنا پڑے گا، سینکڑوں مزدوروں کو دن رات محنت کرنی پڑے گی، تب کہیں جا کر اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکتا ہے۔

    یہ سن کر ملکہ زبیدہ نے جو جواب دیا وہ دلچسپ بھی ہے اور اس سے ان کی قوت فیصلہ اور منصوبے سے دلچسپی کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ انہوں نے چیف انجینئر سے کہا: اعملھا ولو کانت ضربۃ فاس بدینار اس کام کو شروع کردو، خواہ کلہاڑے کی ایک ضرب پر ایک دینار خرچ آتا ہو۔

    اس طرح جب نہر کا منصوبہ تکمیل کو پہنچ گیا تو منتظمین اور نگران حضرات نے اخراجات کی تفصیلات ملکہ کی خدمت میں پیش کیں۔ اس وقت ملکہ دریائے دجلہ کے کنارے واقع اپنے محل میں تھیں۔ ملکہ نے وہ تمام کاغذات لئے اور انہیں کھول کر دیکھے بغیر دریا برد کر دیا اور کہنے لگیں: ” الٰہی! مجھے دنیا میں کوئی حساب کتاب نہیں لینی، تو بھی مجھ سے قیامت کے دن حساب نہ لینا۔ “

    ملکہ زبیدہ نے یہ عظیم الشان کام انجام دے کر حجاج کرام اور باشندگان مکہ کو پانی کی قلت کے سبب درپیش مشکلات کا مسئلہ حل کر دیا۔ اللہ تعالیٰ اس نہر کو ان کے حق میں صدقہ جاریہ بنائے۔
    ( یہ واقع وفیات الاعیان۔ البدایۃ والنھایۃ، کتاب الوافی بالوفیات، الاعلام اور تاریخ مکہ مکرمہ، محمد عبدالمعبود وغیرہ کتب سے مواد اکٹھا کر کے لکھا گیا ہے۔ )۔

    شکریہ۔مولانا عبدالمالک مجاہد
    دار السلام ، ریاض

    Bahoth Khoob

    Jazak Allah

  5. #5
    Mrs.Waqar's Avatar
    Mrs.Waqar is offline Advance Member+
    Last Online
    14th November 2019 @ 09:13 PM
    Join Date
    04 Aug 2015
    Location
    Gujranwala
    Age
    32
    Gender
    Female
    Posts
    5,143
    Threads
    278
    Credits
    48,576
    Thanked
    824

    Default

    جزاک اللہ

    رواں اپنی تلاش میں ۔۔۔۔۔۔۔

Similar Threads

  1. پتھر ذہن گلاب نئیں ہوندے
    By M-Qasim in forum Punjabi
    Replies: 13
    Last Post: 6th November 2015, 06:24 PM
  2. تذکرہ صحابہ (رض) قرآن مجید میں:
    By Waseem_R_N in forum Sunnat aur Hadees
    Replies: 6
    Last Post: 23rd January 2014, 05:21 AM
  3. Replies: 6
    Last Post: 3rd January 2013, 09:11 AM
  4. Replies: 14
    Last Post: 27th December 2011, 12:50 PM
  5. Replies: 32
    Last Post: 25th January 2011, 02:16 AM

Bookmarks

Posting Permissions

  • You may not post new threads
  • You may not post replies
  • You may not post attachments
  • You may not edit your posts
  •