بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
الله تعالیٰ کی ذات اورتمام صفات پر ایمان لانے کا ہر عاقل وبالغ انسان مکلف ہے اور چوں کہ الله کی صفات میں سے بعض جلالی ہیں اور بعض جمالی اور یہ امر بھی طے شدہ ہے کہ ان صفات کے مظاہر اور آثار بھی موجود ہیں، لہٰذا ان مظاہروآثار کی تصدیق بھی ضروری ہے کہ بغیر اس کے ایمان کالعدم ہے۔ من جملہ ان مظاہر وآثار کے دوزخ وجنت بھی ہیں، جن پر ایمان ، ایمان بالآخرہ کے ضمن میں آتا ہے۔
پس اس بات کا یقین رکھنا ضروری ہے کہ الله جس کو چاہے اس کے گناہوں کو معاف کرکے جنت کے اونچے درجات تک پہنچا سکتا ہے.... کیوں کہ وہ ہرشے کی قدرت رکھتا ہے اور غفور الرحیم بھی ہے اور صفات جلالیہ کی بنا پر وہ جس کو عذاب دینا چاہے تو بھی اس کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہے
ان دونوں قسم کی صفات اور ان کے مظاہر پر ایمان لانے کا اثر یہ ہوتا ہے کہ جب ہم رحمت خداوندی کا تصور کریں تو یہ امید پیدا ہو کہ ہمارے گناہ کو معاف کر دے گا اور جب جلالیت کا تصور ہو تو یہ خوف پیدا ہو کہ ہمارے جرائم کی وجہ سے ہمارا مواخذہ ہو گا۔ اسی کا نام ہے خوف ورجا یعنی ڈر بھی ہو اور امید بھی۔
اگر ان صفات میں سے کسی ایک کو یا اس کے مظہر کو نظر انداز کیا جائے تو ایمان باقی نہیں رہتا، جیسا کہ شرح عقائد میں اس کی تصریح کی گئی ہے۔
الله تعالیٰ کی رحمت سے ناامید ہونا کفر ہے، یعنی خوف اتنا زیادہ ہو کہ رحمت کی کوئی امید باقی نہ رہے، یہ کفر ہے ۔چناں چہ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: بے شک ناامید نہیں ہوتے الله کے فیض سے، مگروہی لوگ جو کافر ہیں ۔
اور الله کے عذاب سے بالکل بے خوف وبے پروا ہونا ( بھی) کفر ہے۔
ترجمہ:سوبے ڈر نہیں ہوتے الله کے داؤ سے، مگر خرابی میں پڑنے والے۔
یعنی یاتو آخرت سے بالکل لا تعلق ہو کر بے پروا اور بے خوف ہو جائے
یا امید اتنی بڑھ جائے کہ خوف ہی ختم کر دے، یہ دونوں صورتیں ایمان کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتی ہیں، تاہم نیک عمل کے ساتھ رجا کا پہلو خوف پر غالب ہونا چاہیے کہ یہ علامت محبت ہے اورجو کام محبت وعقیدت کی بنیاد پر کیا جائے اس کا عوض اس عمل سے زیادہ ہوتا ہے، جو محض خوف کی بنا پر اور سزا سے بچنے کے لیے کیا جائے۔ چناں چہ ایک حدیث قدسی میں یہ کلمات وارد ہوئے ہیں :
میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں اب وہ جو چاہے، گمان کرے۔“ (ترمذی ص200 ج2)
اور اسی حکمت کے تحت موت کے وقت حسن ظن اور رجا کی تاکید آئی ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:
”تم میں سے کوئی نہ مرے مگر اس حال پر کہ وہ حسن ظن رکھتا ہو الله کے ساتھ۔“( مسلم387 ج2)
البتہ اگر کوئی کام خلاف شرع ہو تو اس کے ارتکاب کی صورت میں خوف ہی محمود ومطلوب ہے، کیوں کہ اسی کی بدولت گناہ کرنے کی جرأت ختم ہو جاتی ہے یا پھر توبہ کرنے کی توفیق ملتی ہے، گویارجا کا زیادہ تر تعلق طاقت سے ہے، تاکہ مزید طاعات وعبادات کی رغبت پیدا ہو اور نیکی کی ہمت تیز تر ہو اور خوف اکثروبیشتر غیر مشروع کاموں کے ساتھ مربوط ہونا چاہیے، تاکہ گناہ کرنے کی نوبت نہ آئے اور کیے ہوئے گناہوں کو بذریعہ توبہ معاف کراسکے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے آمین
Bookmarks