خلیجی فوجوں کی فوری واپسی خارج از امکان
ملک میں امن واستحکام کے لیے اپوزیشن سے مذاکرات کے دروازے کھلے ہیں: بحرینی وزیرخارجہ

ہفتہ 14 ربيع الثاني 1432هـ - 19 مارچ 2011م
منامہ ۔ محمد العرب

خلیجی ریاست بحرین کے وزیرخارجہ الشیخ خالد بن حمد آل خلیفہ نے کہا ہے انہوں نے ملک میں ایمرجنسی اس لیے نافذ نہیں کہ اپوزیشن سے مذاکرات کے دروازے بھی بند کردیے جائیں۔

منامہ نے تمام اپوزیشن دھڑوں کے لیے مذاکرات کے دروازے اب بھی کھلے رکھے ہیں۔ جو لوگ حکومت پر مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے الزامات عائد کررہے ہیں وہ خود ہی مذکرات سے فرار اختیار کرتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے بات چیت پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔
ٹھوس مذکرات وقت کی ضرورت

العربیہ ٹی وی کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں شیخ خالد بن حمد کا کہناتھا کہ حکومت کو اپوزیشن سے بات چیت کی اہمیت کا اندازہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک میں ایمر جنسی کے نفاذ کے باوجود بات چیت کا عمل جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپوزیشن جماعتوں سے بامقصد مذاکرات چاہتے ہیں جس میں آئین میں ترامیم، حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی بہتری جیسے امور شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت ملک میں توڑپھوڑ ، قتل عام اورلوٹ مار کی موجودہ فضاء کو ختم کرکے حالات کو معمول پر لانے کے لیے کوشاں ہے۔ ملک میں امن و استحکام اولین ترجیح ہے اور بدامنی پھیلانے والے عناصر کی پوری قوت سے سرکوبی کی جائے گی۔

بحرین میں ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کے اور اس کے اثرات سے متعلق العربیہ کے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزیرخارجہ نے کہا کہ بحرین کو جس طرح کےحالات کا سامنا ہے، کئی دوسرے ملکوں کی بھی یہی کیفیت ہے۔ بحرین میں اگرفرقہ وارانہ فسادات پھوٹتے ہیں تو پورا خطہ اس سے متاثر ہو گا۔
فرقہ واریت میں غیر ملکی ہاتھ

العربیہ ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے بحرینی وزیر خارجہ نے اعتراف کیا کہ ان کے ملک میں رو نما ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات میں بیرونی ہاتھ ملوث ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سیکیورٹی حکام نے ایسے دسیوں افرادکو حراست میں لیا ہے جن کے بیرون ملک انٹیلی جنس اداروں سے روابط تھے اور وہ لوگ غیرملکی اشاروں پر بحرین کا امن تباہ کرنا چاہتے تھے۔ ایک سوال کے جواب میں الشیخ خالد بن حمد نے کہا کہ ایران ان کے ملک میں بدامنی پھیلانے میں براہ راست ملوث ہے جس کی وہ بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

ایران کے ساتھ سفارتی تعلقا ت پر نظر ثانی اور سفیر کی واپسی کے امکان بارے پوچھے گئے سوال پر مسٹر خالد بن حمد نے کہا کہ فوری طورپر ایران سے سفارتی تعلقات توڑنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ تاہم ایرانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے ان کے ملک کی بحرین میں مداخلت پر احتجاج کےحوالے سے مشاورت جاری ہے۔

ان کا کہناتھا کہ بحرین میں رونما ہونے والے واقعات کی بنا پر وہ ایران کے ساتھ تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہتے۔ وہ تہران سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ منامہ میں اپنی مداخلت بند کرے گا۔ انہوں نے کہا کہ ایران کے اپنے پڑوسی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں۔ ایران مسلسل قریبی ملکوں میں مداخلت کرتا رہتا ہے۔
خلیجی فوجیں مکمل امن تک موجود رہیں گی

ادھر ایک دوسری پیش رفت میں بحرینی وزیر خارجہ شیخ خالد بن حمد نے کہا ہے کہ خلیج تعاون کونسل کی منامہ میں آئی افواج اس وقت تک موجود رہیں گی جب تک ان کی ضرورت ہے۔ منامہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جی سی سی ممالک کی افواج کی بحرین آمد کا مقصد صرف امن و امان کی بحالی نہیں بلکہ یہ فوجیں اسٹریٹیجک مقاصد کے لیے آئی ہیں۔ جب تک وہ مقاصد حاصل نہیں ہوجاتے یہ فوجیں بحرین میں رہیں گی۔

انہوں نے کہا کہ اگلے چند روز میں مزید تین یا چار خلیجی ممالک کے امن دستے بھی منامہ آئیں گے کیونکہ انہیں امن کی بحالی کے لیے مزید فورسز کی ضرورت ہے۔
شیخ خالد بن حمد نے خلیج کونسل کی جانب سے بروقت اپنی افواج کو بحرین ارسال کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امن دستوں کی آمد کے بعد ملک میں جاری فرقہ وارانہ فسادات کم ہو گئے ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں بحرینی عہدیدار نے کہا کہ خلیجی فوجیں صرف تیل جیسی اہم تنصیبات کی حفاظت پر مامور ہوں گی انہیں مظاہرین کو منتشر کرنےکے لیے طلب نہیں کیا جائے گا۔ شیخ خالد نے اپنی امریکی ہم منصب ہیلری کلنٹن کے اس پر بیان پر کوئی سخت ردعمل دینے سے گریز کیا جس میں انہوں نے منامہ میں خلیجی فوجوں کی آمد کو "غلط اقدام" قرار دیا تھا۔